غزل : کبھی مصروفِ آزادی بھی یہ ہونے نہیں دیتے - اقبال ساجد

غزل
کبھی مصروفِ آزادی بھی یہ ہونے نہیں دیتے
مرے بچّے مجھے فٹ پاتھ پر سونے نہیں دیتے

ہنر جب جانتا ہوں میں دلوں کو کاشت کرنے کا
یہ کیسے لوگ ہیں جو بیج بھی بونے نہیں دیتے

جوانی جاگتی ہے جن میں کچھ ایسے بھی چہرے ہیں
جو دن کو سوتے ہیں وہ رات کو سونے نہیں دیتے

میں آخر اپنی آنکھیں جیب میں رکھ کر کہاں جاؤں؟
پڑوسی ہیں کہ بینائی سے خوش ہونے نہیں دیتے

عجب انداز کے کچھ لوگ بستے ہیں خیالوں میں
تجھے ہنسنے نہیں دیتے مجھے رونے نہیں دیتے

وہی آئینہ پیراہین کہ جن میں گرد اُڑتی ہے
غلاظت اپنے ذہنوں کی مجھے دھونے نہیں دیتے

بکھرنے کی اجازت بھی نہیں ہے مجھ کو سڑکوں پر
اسیرِ عقل ساجدؔ عقل بھی کھونے نہیں دیتے
اقبال ساجد
 
Top