غزل : چراغ جان کے یونہی جلا لیا گیا تھا

اشرف نقوی

محفلین
چراغ جان کے یونہی جلا لیا گیا تھا
ہمیں بھی طاق کی زینت بنا لیا گیا تھا

تمہارے لمس سے محظوظ کس طرح ہوتے
کہ ہم کو خواب سے باہر بلا لیا گیا تھا


اِسی لیے تو ابھی تک میں نامکمل ہوں
ادُھورا چاک سے مجھ کو اُٹھا لیا گیا تھا

اُتر ہی جاتے کسی ساحلِ مراد پہ ہم
ہمیں ہوا کے بھنور میں پھنسا لیا گیا تھا

تھے صرف ہم ہی جو رکھتے تھے دل بھی ، دُنیا بھی
سو آگ پانی کو باہم ملا لیا گیا تھا

ابھی تلک ہیں اُسی کے اثر میں ہم اشرف
جو نغمہ وصل کا خلوت میں گا لیا گیا تھا

اشرف نقوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
آپ سے گزارش ہے کہ تعارف والے زمرے میں اپنا تعارف بھی پیش کیجئے تاکہ ہم آپ کو محفل میں باقاعدہخوش آمدید کہہ سکیں۔
 
Top