امجد اسلام امجد غزل: وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا

وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا
وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا

باغ میں پُھول اُس روز جو بھی کِھلا، اُسکی زلفوں میں سجنے کو بے چین تھا
جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُسکی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا

کہکشاں سے پَرے، آسماں سے پَرے، رہگزارِ زمان و مکاں سے پرے
مجھ کو ہر حال میں ڈھونڈنا تھا اُسے، یہ زمین کا سفر تو بہانہ ہُوا

اب تو اُسکے دِنوں میں بہت دُور تک، آسماں ہیں نئے اور نئی دُھوپ ہے
اب کہاں یاد ہو گی اُسے رات وہ، جس کو گزرے ہوئے اِک زمانہ ہُوا

موسمِ وصل میں خُوب ساماں ہوئے، ہم جو فصلِ بہاراں کے مہماں ہوئے
گھاس قالین کی طرح بِچھتی گئی، سر پہ ابرِ رواں، شامیانہ ہُوا

اب تو امجدؔ جُدائی کے اُس موڑ تک، درد کی دُھند ہے اور کچھ بھی نہیں
جانِ من! اب وہ دن لَوٹنے کے نہیں، چھوڑیے اب وہ قصّہ پرانا ہُوا

٭٭٭
امجد اسلام امجد
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا
وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا

باغ میں پُھول اُس روز جو بھی کِھلا، اُسکی زلفوں میں سجنے کو بے چین تھا
جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُسکی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا

کہکشاں سے پَرے، آسماں سے پَرے، رہگزارِ زمان و مکاں سے پرے
مجھ کو ہر حال میں ڈھونڈنا تھا اُسے، یہ زمین کا سفر تو بہانہ ہُوا

اب تو اُسکے دِنوں میں بہت دُور تک، آسماں ہیں نئے اور نئی دُھوپ ہے
اب کہاں یاد ہو گی اُسے رات وہ، جس کو گزرے ہوئے اِک زمانہ ہُوا

موسمِ وصل میں خُوب ساماں ہوئے، ہم جو فصلِ بہاراں کے مہماں ہوئے
گھاس قالین کی طرح بِچھتی گئی، سر پہ ابرِ رواں، شامیانہ ہُوا

اب تو امجدؔ جُدائی کے اُس موڑ تک، درد کی دُھند ہے اور کچھ بھی نہیں
جانِ من! اب وہ دن لَوٹنے کے نہیں، چھوڑیے اب وہ قصّہ پرانا ہُوا
ایک خوبصورت غزل شریک محفل کرنے کا شکریہ تابش بھائی۔
 
Top