فراق غزل : میں کہ گا نہیں سکتا نغمۂ وطن تنہا - فراق گورکھپوری

آج سے کوئی پینتالیس برس پہلے کی بات ہے الہ آباد کہ ایک مشاعرے میں میرزا یگانہ نے اپنی تازہ ترین فارسی غزل سنائی جس کی شہرت اب تک اُردو دنیا کے خاص خاص حلقوں میں ہے اس زمین یا اسی بحر میں قافیہ بدل کر صرف تنہا کی ردیف کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان میں کہیں اُردو غزلیں کہیں گئیں مگر اُنھیں میرزا یگانہ کی غزل کی مقبولیت نصیب نہیں ہوئی میرا دل بھی اس زمین میں غزل کہنے کو برسوں سے چاہ رہا تھا آج پینتالیس برس بعد یہ تمنا پوری ہوئی! فراق گورکھپوری
(بحوالہ ماہنامہ آج کل دہلی بابت جون 1968ء )

غزل
میں کہ گا نہیں سکتا نغمۂ وطن تنہا
کیسے دہر کا چھیڑوں سازِ انجمن تنہا

جب بھی غور سے دیکھا تھی ہر انجمن تنہا
سازِ ایں و آں تنہا ، سوزِ ما و من تنہا

رنگ اور بے رنگی ، شادی و محن تنہا
رونق اور ویرانی باغ اور بن تنہا

ہر کوئی سمجھتا ہے اپنی ہی نگاہ اُس کو
پڑ رہی ہے اس رُخ پر آج اک کرن تنہا

کون آنکھ اُٹھتا ہے ، کون کان دیتا ہے
میری خامشی تنہا ، شیوۂ سخن تنہا

اس کی ہی بدولت ہے خطۂ ختن آباد
اور خوشبوئے مشکِ آہوئے ختن تنہا

آج تم کو جانا ہے ، جاؤ خوش رہو بھائی
مجھ کو تو اُٹھانا ہے ہر غم و محن تنہا

لے کے ایک انگڑائی بزم ہو گئی رخصت
یادکارِ محفل ہے شمعِ انجمن تنہا

اجنبی فضاؤں کی بھیگتی چلیں پلکیں
گا رہا ہوں غربت میں نغمۂ وطن تنہا

میں نے خواب میں دیکھا پچھلی رات کو ہمراز
حلقۂ گنہگاراں اور اہرمن تنہا

درسِ گاۂ اعظم ہے درسِ گاۂ تنہائی
عشق کسب کرتا ہے زندگی کے فن تنہا

سینۂ زماں میں ، میں بُو رہا ہوں آوازیں
خامشی کے پردوں میں ، میں ہوں نغمہ زن تنہا

جانے اور انجانے کتنے قیس گزرے ہیں
پھر بھی روزِ اوّل سے نجد کا ہے بن تنہا

شب کی کیا ضرورت تھی اہلِ دل کو دنیا میں
تیرگی کو کافی تھی زلفِ پُر شکن تنہا

کاش یہ غزل سنتے میرزا یگانہ بھی
مجھ سے اُٹھ نہیں سکتا بارِ فکر و فن تنہا

میں فراق سنتا ہوں سرمدی نواؤں کو
بیکراں فضاؤں میں دل ہے نغمہ زن تنہا

بزم میں بُلاتے ہو اس فراقّ کو جس نے
عمر بھر پیا غم کا بادۂ کہن تنہا
فراق گورکھپوری​
 
آخری تدوین:
Top