غزل : میں بھول گئی ہوں اُسے یہ بات نہیں ہے ۔از: ہما بیگ

عین عین

لائبریرین

غزل​
میں بھول گئی ہوں اُسے یہ بات نہیں ہے​
یہ بات الگ اُس سے ملاقات نہیں ہے​
کتنی یہ بجھی شام ہے چھائی ہے اُداسی​
کس طور کہا جائے کہ یہ رات نہیں ہے​
اُس شخص کا اقرارِ محبت ہے مجھے یاد​
وہ بھول گیا ہو تو کوئی بات نہیں ہے​
آنسو مرے ٹھیرے ہیں کہ ٹھیرا ہے مرادل​
پہلی سی وہ اُمڈی ہوئی برسات نہیں ہے​
ملنے کو تو احباب سے ملتے ہیں ابھی تک​
ملنے میں مگر پہلی سی وہ بات نہیں ہے​
ہما بیگ​
 
Top