جگر غزل : مذہبِ عشق کر قبول ، مسلکِ عاشقی نہ دیکھ - جگر مراد آبادی

غزل
مذہبِ عشق کر قبول ، مسلکِ عاشقی نہ دیکھ
محشرِ التجا تو بن صورتِ ملتجی نہ دیکھ

دل کو مٹا کے عشق میں دل کی طرف کبھی نہ دیکھ
ہو کے نثارِ زندگی حاصلِ زندگی نہ دیکھ

جان کو جب گُھلا چکا جان کی فکر ہی نہ کر
شمع کو جب بجھا چکا ، شمع کی روشنی نہ دیکھ

ناصحِ کم نگاہ سے کون یہ کہہ کے سر کھپائے
رازِ شکستگی سمجھ ، رنگِ شکستکی نہ دیکھ

کس لیے جان دیتے ہیں رند شرابِ ناب پر
پوچھ نہ روز، محتسب ! تھوڑی سی آج پی نہ دیکھ

تجھ کو بھی اب قسم ہے، یہ تیرے ستم کا واسطہ
نالۂ نیم شب نہ سن ، آہ سحر گہی نہ دیکھ

ہو کے رہے گا ہم نوا وہ بھی ترے ہی ساتھ ساتھ
نغمۂ شوق گائے جا ، حسن کی برہمی نہ دیکھ

عشق ادا شناسِ حسن ، حسن ادا شناسِ عشق
کام سے اپنے کام رکھ ، بے خودی و خودی نہ دیکھ

یہ بھی تری طرح کبھی رُخ سے نقاب اُلٹ نہ دے
حُسن پہ اپنے رحم کر ، عشق کی سادگی نہ دیکھ

فتنۂ روزگار میں ہے یہی رازِ عاقبت
دل جسے چاہے دیکھنا ، دیکھ جگرؔ ؟ وہی نہ دیکھ
جگر مراد آبادی
 
آخری تدوین:
Top