جاں نثار اختر غزل : مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا - جاں نثار اختر

نذرِ میر
مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا
جتنے بھی بد نام ہوئے ہم اتنا اس نے پیار کیا

اس سے تھوڑی آنکھ لڑا کر سوچا تھا بچ نکلیں گے
اُس کی ترچھی نظروں نے تو دل پر سیدھا وار کیا

پوچھتے کیا ہو پہلے پہلے کس سے ہم کو پیار ہوا
جس سے ہم کو پیار سکھایا ، پہلے اس سے پیار کیا

پہلے بھی خوش چشموں میں ہم چوکنا سے رہتے تھے
تیری سوئی آنکھوں نے تو اور ہمیں ہُشیار کیا

جاتے جاتے کوئی ہم سے اچھے رہنا کہہ تو گیا
پوچھے لیکن پوچھنے والے کس نے یہ بیمار کیا

تم سے پہلے ایک نے ہم کو جینے کے سو لطف دیے
تم نے وہ لطف بھی چھینے ، جینا بھی دشوار کیا

تیرے بِن اب شعر بھی کہنا ہم کو مشکل ہوتا ہے
اتنا کیوں مجبور بنایا ، اتنا کیوں لاچار کیا

قطرہ قطرہ صرف ہوا ہے عشق میں اپنے دل کا لہو
شکل دکھائی تب اس نے جب آنکھوں کو خوں بار کیا

ہم پر کتنی بار پڑے یہ دورے بھی تنہائی کے
جو بھی ہم سے ملنے آیا ملنے سے انکار کیا

عشق میں کیا کیا سود و زیاں ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے ساری عمر ہی یارو، دل کا کاروبار کیا

محفل پر جب نیند سی چھائی سب کے سب خاموش ہوئے
ہم نے تب کچھ شعر سنایا لوگوں کو بیدار کیا

اب تم سوچو اب تم جانو جو چاہو اب رنگ بھرو
ہم نے تو اک نقشہ کھینچا، اک خاکہ تیار کیا

دیش سے جب پردیش سدھارے ہم پر یہ بھی وقت پڑا
نظمیں چھوڑی غزلیں چھوڑی گیتوں کا بیوپار کیا
جاں نثار اختر
1956ء
 
Top