غزل : محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے - علامہ رشید ترابیؔ

غزل
محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے
شرکت ہے احتیاج ، صمد لا شریک ہے

بدبخت کون ہے نہ کُھلا سب نے یہ کہا
کشتی کے ساتھ ڈوبنے والا شریک ہے

ہر فتحیاب کے لئے تنہا تھا تیرا نام
اب جشنِ فتح میں تو زمانہ شریک ہے

یہ دوست کا ہے غم تو مبارک مکر یہ سوچ
اس غم میں کس قدر غمِ دنیا شریک ہے

ظاہر میں دلفریب سہی ربطِ باہمی
دردِ دروں میں کون کسی کا شریک ہے

ممکن نہیں کہ صرف شفق کا یہ رنگ ہو
اس میں کسی کا خون بہت سا شریک ہے

مجبور پر عذاب ہے ، کس طرح کا یہ عدل
جب ہر گنہ میں عالمِ بالا شریک ہے

کانٹا کوئی چُبھے تو اکیلا نہ جانیئے
ایک اس خلش میں وحشتِ صحرا شریک ہے

محشر لرز رہا ہے اس آواز سے رشیدؔ
ہاں کون میرے قتل میں کتنا شریک ہے
علامہ رشید ترابی
 
Top