خورشید رضوی غزل : مآلِ صحبتِ شب سوچنے کو آیا ہوں - خورشید رضوی

غزل
مآلِ صحبتِ شب سوچنے کو آیا ہوں
کہاں چلے گئے سب ، سوچنے کو آیا ہوں

وہ جس کی سوچ میں صدیوں نے مُوند لیں آںکھیں
وہ ایک بات میں اب سوچنے کو آیا ہوں

ہجومِ شہر سے دُور ، ان اُداس کھیتوں میں
اداسیوں کا سبب سوچنے کو آیا ہوں

جو آج تک مری اپنی سمجھ میں آ نہ سکی
وہ اپنے دل کی طلب سوچنے کو آیا ہوں

ابھی سوال نہیں تیرے آستانے پر
فقط سوال کا ڈھب سوچنے کو آیا ہوں

ہوا سے دہکے ہوئے گُل کے روبرو خورشیدؔ
کسی کی سُرخیِ لب سوچنے کو آیا ہوں
خورشید رضوی
 
Top