رضا غزل قطع بند

انبیاء کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات
مثلِ سابق وہی جسمانی ہے
روح تو سب کی ہے زندہ ان کا
جسمِ پُر نور بھی روحانی ہے
اوروں کی روح ہو کتنی ہی لطیف
ان کے اجسام کی کب ثانی ہے
پاؤں جس خاک پہ رکھ دیں وہ بھی
روح ہے پاک ہے نورانی ہے
اس کی ازواج کو جائز ہے نکاح
اسکا ترکہ بٹے جو فانی ہے
یہ ہیں حیِّ ابدی ان کو رضا
صدقِ وعدہ کی قضا مانی ہے
 
Top