غزل: غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک

احباب گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک

میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک

حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک

نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک

چُھٹا چمن تو گیا رُو ئے گُل سے وہ یکسر
کہ جو نکھار تھا صحنِ چمن میں رہنے تک

دیارِ غیر میں آ کر وہ کیا پھلے پھولے
رہا جو بے سَر و ساماں وطن میں رہنے تک

جدا ہوئے تو یہ وعدہ تمہارا یاد آیا
جدا نہ ہونگے کبھی روح تن میں رہنے تک

نجات نیشِ بہاراں سے دشت ہی دیگا
میں بے قرار رہونگا چمن میں رہنے تک

کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک

بنے جو ذہن میں نقشِ جدید تو کیسے
خیالِ خوبیٔ نقشِ کہن میں رہنے تک

جلیگا خونِ جگر راہ میں بہت عابدؔ
تلاشِ منزلِ تکمیلِ فن میں رہنے تک

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 

یاسر شاہ

محفلین
میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک

نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک

کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک
بہت خوب ۔ماشاء اللہ عمدہ اشعار۔

حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک
دار و رسن میں رہنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔یہ کوئی مقام تو ہے نہیں،کیا خیال ہے اس بابت آپ کا علوی بھائی؟
 
بہت خوب ۔ماشاء اللہ عمدہ اشعار۔


دار و رسن میں رہنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔یہ کوئی مقام تو ہے نہیں،کیا خیال ہے اس بابت آپ کا علوی بھائی؟
یاسر بھائی ، پذیرائی كے لیے ممنون ہوں . جزاک اللہ . دار و رسن میں ’رہنے‘ پر عرض ہے کہ گھڑی بھر كے قیام کو بھی ’رہنا‘ کہہ سکتے ہیں ، مثلاً :
پہلو میں چین سے دِلِ مضطر نہ رہ سکا
دم بھر نہ رک سکا یہ گھڑی بھر نہ رہ سکا ( نوح ناروی )
پِھر دار و رسن کی ساری کار روائی تو ویسے بھی ایک گھڑی میں مکمل نہیں ہوتی . قیام کی مدت قلیل سہی ، وہاں کچھ دیر تو ’رہا‘ جاتا ہے . :)
 

ارشد رشید

محفلین
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک

میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک

حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک

نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک

چُھٹا چمن تو گیا رُو ئے گُل سے وہ یکسر
کہ جو نکھار تھا صحنِ چمن میں رہنے تک

دیارِ غیر میں آ کر وہ کیا پھلے پھولے
رہا جو بے سَر و ساماں وطن میں رہنے تک

جدا ہوئے تو یہ وعدہ تمہارا یاد آیا
جدا نہ ہونگے کبھی روح تن میں رہنے تک

نجات نیشِ بہاراں سے دشت ہی دیگا
میں بے قرار رہونگا چمن میں رہنے تک

کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک

بنے جو ذہن میں نقشِ جدید تو کیسے
خیالِ خوبیٔ نقشِ کہن میں رہنے تک

جلیگا خونِ جگر راہ میں بہت عابدؔ
تلاشِ منزلِ تکمیلِ فن میں رہنے تک
عرفان صاحب - جان کی امان پاؤ ں تو کچھ عرض کروں - آپ کی یہ غزل کے اکثر اشعار ضعفِ ردیف کا شکار ہے - مطلب یہ کہ جو ردیف آپ نے رکھی رہنے تک وہ ہر شعر میں نبھہ نہیں سکی-
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک
== یہان تو ردیف نبھ رہی ہے مگر مفہوم نہیں بنتا - آپ کو تو کیا رن میں رہنے تک تو کسی کو اماں نہیں ملتی - رن تو ہوتا ہی بے امانی کا نام ہے تو آپ آہ کیوں کر رہے ہیں
اگر زندگی نام ہی غموں سے جنگ کا ہے تو آپ کو پھر کیوں اماں کا انتظار تھا کہ نہ ملنے پر آپ آہ بھر رہے ہیں؟؟

میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک
== یہ ضعف ردیف ہے - رہنے تک کا مطلب ہوا کہ آپ نے حد بندی کر دی کہ یہاں تک - تو جب آپ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ شور و شر تھا ہی تب تلک جب تلک میں بزم میں تھا تو لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کے بعد وہ ختم ہوجائیگا تو پھر یہ کہنا کہ وہ خاموشی میں ڈوب گیا چہ معنی دارد؟

حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک
== دار و رسن میں رہنے تک غلط استعمال ہو ا - میں یاسر صاحب سے متفق ہوں

نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک
== یہ شعر رہنے تک کی وجہ سے ایک نا مکمل بات کا تاثر پیش کرتا ہے

چُھٹا چمن تو گیا رُو ئے گُل سے وہ یکسر
کہ جو نکھار تھا صحنِ چمن میں رہنے تک
== یہاں بھی وہی بات ہے - جب آپ نے کہا صحن چمن میں رہنے تک تو گویا آپ نے حد بندی کردی کہ روئے گل پہ نکھار صحن چمن میں رہنے تک ہی تھا تو پھر یہ بات ہی بے معنی ہوگئی - آپ کو کہنا تھا صحن ِ چمن میں رہتے ہوئے جو نکھار تھا وہ اسکے بعد نہ رہا مگر آپ نے لکھا رہنے تک کیونکہ ردیف کی مجبوری تھی اور یہی ضعف ردیف کہلاتا ہے

دیارِ غیر میں آ کر وہ کیا پھلے پھولے
رہا جو بے سَر و ساماں وطن میں رہنے تک
== یہاں بھی رہنے تک ردیف کی مجبوری جو مفہوم بدل دے گا - اوپر دی گئی بات اس پر پہ لاگر کر کے دیکھیں آپ کو ضعف ردیف نظر آجائیگا
جدا ہوئے تو یہ وعدہ تمہارا یاد آیا
جدا نہ ہونگے کبھی روح تن میں رہنے تک
== یہ چلے گا
نجات نیشِ بہاراں سے دشت ہی دیگا
میں بے قرار رہونگا چمن میں رہنے تک
== یہ صحیح ہے
کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک
== یہاں بھی کھلے وہ آ کے دوسرے مصرعے کی رہنے تک ردیف سے میچ نہیں کرتا - غور کریں تو سروسمن سے پیرہن کا سفر یہاں مفقود ہے -
مگر یہ بات محض میری رائے ہو سکتی ہے کوئی اس سے اختلاف بھی کر سکتا ہے


بنے جو ذہن میں نقشِ جدید تو کیسے
خیالِ خوبیٔ نقشِ کہن میں رہنے تک
== یہ اچھا ہے
جلیگا خونِ جگر راہ میں بہت عابدؔ
تلاشِ منزلِ تکمیلِ فن میں رہنے تک
== یہاں بھی تک کی کوئ ضرورت نہیں - جملہ ہوگا کہ تلاشِ تکمیلِ فن میں بہت خون جلے گا - یہاں تلاش میں رہنے تک بہت خون جلے گا کی کوئ ضرورت نہیں او ر کیا جب تکمیل فن ہوجائگا تو خون نہیں جلے گا؟ وہ تو تب بھی جلے گا مگر رہنے تک کہنا ردیف کی مجبوری کی وجہ سے آپ کو کہنا پڑا اور یہی ضعف ردیف ہے

برا لگے میرا تجزیہ تو لاحول پڑھ کر رد کر دیجیئے گا -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ، عرفان بھائی!کیا اچھی کاوش ہے!
مقطع پسند آیا ۔ بہت داد!
لیکن بصد ادب و معذرت عرض ہے کہ یہ غزل آپ کے عمومی معیار تک نہیں پہنچ سکی ۔ شاید بہت پرانی غزل ہے۔ اس کی زمین بہت دشوار ہے اور اس دشواری کا اظہار تقریباً ہر ہر شعر سے ہورہا ہے۔ ردیف نبھانا اکثرمشکل ثابت ہوا۔
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک
مطلع نہ صرف یہ کہ متاثر نہیں کرسکا بلکہ اس کا مصرعِ ثانی شعر کے مجموعی معنی سے متصادم بھی نظر آیا۔ میری ناقص رائے میں غزل کا مطلع اہم ہوتا ہے کہ قاری کی توجہ اور توقع اگر یہیں شکستہ ہوجائے تو پھر اس کے لیے آگے چلنا دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے شعر پر بھی چونکنا پڑا۔
میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک
شور و شر کا مطلب منفی ہوتا ہے یعنی فتنہ فساد ، لڑائی جھگڑا وغیرہ ۔ مجھے یقین ہے کہ اس شعر میں آپ یہ اعتراف نہیں کر رہے کہ انجمن میں جو بھی دنگا فساد تھا اس کی جڑ آپ ہی تھے :) :) :) لیکن اس شعر کا سیدھا سیدھا اور صاف مطلب یہی نکل رہا ہے۔اسے دیکھ لیجیے۔ مجھے اس شعر میں پیرایۂ اظہار بدلنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ :)
 
عرفان صاحب - جان کی امان پاؤ ں تو کچھ عرض کروں - آپ کی یہ غزل کے اکثر اشعار ضعفِ ردیف کا شکار ہے - مطلب یہ کہ جو ردیف آپ نے رکھی رہنے تک وہ ہر شعر میں نبھہ نہیں سکی-
اَرْشَد صاحب ، جان کی امان کا ذکر کیوں . یہ آپ کی بزم ہے اور اظہار خیال آپ کا حق ہے . لگتا ہے میری ناچیز غزل نے آپ کی حس جراحی پھڑکا دی . :) مذاق بر طرف ، تفصیلی تجزیے کا شکریہ ! آپ نے تِین عدد اشعار قابل قبول قرار دئے ہیں سو اس كے لیے ممنون ہوں . بقیہ اشعار پر آپ كے اعتراضات خاصی بنیادی نوعیت كے ہیں . شاعر اور قاری کی فکر كے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو تو وضاحت بہت مشکل اور اکثر بےسود ہوتی ہے . لیکن چونکہ آپ نے اپنے تبصرے پر اتنی محنت کی ہے ، میں ایک کوشش کرنا واجب سمجھتا ہوں .
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک
== یہان تو ردیف نبھ رہی ہے مگر مفہوم نہیں بنتا - آپ کو تو کیا رن میں رہنے تک تو کسی کو اماں نہیں ملتی - رن تو ہوتا ہی بے امانی کا نام ہے تو آپ آہ کیوں کر رہے ہیں
اگر زندگی نام ہی غموں سے جنگ کا ہے تو آپ کو پھر کیوں اماں کا انتظار تھا کہ نہ ملنے پر آپ آہ بھر رہے ہیں؟؟
آپ یہ کس بنا پر فرما رہے ہیں کہ رن میں اماں نہیں مل سکتی ؟ کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ دشمن بوجوہ چند حملہ روک دیتا ہے اور آپ کو وقتی طور پر سہی ، اماں مل جاتی ہے . اور کبھی کوئی معاون آ کر آپ کو بچا لیتا ہے . میں اس صورت حال کا ذکر کر رہا ہوں جس میں نہ دشمن کی طرف سے کوئی ڈھیل ملی نہ کہیں سے کوئی مدد . خیر ، ان دلائل کو فی الحال بالائے طاق رکھتے ہیں اور آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ رن میں اماں نہ ملنا ہی معمول ہے . تو کیا شعر میں معمول پر اظہار افسوس ممنوع ہے ؟ کیا اِس كے لیے ایک غیر معمولی وجہ لازمی ہے ؟
میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک
== یہ ضعف ردیف ہے - رہنے تک کا مطلب ہوا کہ آپ نے حد بندی کر دی کہ یہاں تک - تو جب آپ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ شور و شر تھا ہی تب تلک جب تلک میں بزم میں تھا تو لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کے بعد وہ ختم ہوجائیگا تو پھر یہ کہنا کہ وہ خاموشی میں ڈوب گیا چہ معنی دارد؟
مطلع کی طرح آپ نے پِھر واضح (obvious ) كے بیان پر اعتراض کیا ہے اور میرا سوال وہی ہے کہ اِس میں ہرج کیا ہے ؟
حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک
== دار و رسن میں رہنے تک غلط استعمال ہو ا - میں یاسر صاحب سے متفق ہوں
اِس شعر پر یاسر صاحب کو میرا جواب ملاحظہ فرمائیے . ’اِس سے زیادہ حاجتِ شرح و بیاں نہیں .‘
نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک
== یہ شعر رہنے تک کی وجہ سے ایک نا مکمل بات کا تاثر پیش کرتا ہے
لگتا ہے آپ كے یہاں بات کو نہ واضح طور پر کہنے کی اِجازَت ہے ، نہ اشاروں میں . اب بے چارہ شاعر کرے تو کیا کرے . :) بھائی ، یہاں بات اشاروں میں مکمل کر دی گئی ہے . یعنی گھر سے نکلنے كے بعد میں زندہ لاش نہیں رہا .
چُھٹا چمن تو گیا رُو ئے گُل سے وہ یکسر
کہ جو نکھار تھا صحنِ چمن میں رہنے تک
== یہاں بھی وہی بات ہے - جب آپ نے کہا صحن چمن میں رہنے تک تو گویا آپ نے حد بندی کردی کہ روئے گل پہ نکھار صحن چمن میں رہنے تک ہی تھا تو پھر یہ بات ہی بے معنی ہوگئی - آپ کو کہنا تھا صحن ِ چمن میں رہتے ہوئے جو نکھار تھا وہ اسکے بعد نہ رہا مگر آپ نے لکھا رہنے تک کیونکہ ردیف کی مجبوری تھی اور یہی ضعف ردیف کہلاتا ہے
یہاں آپ کا اعتراض وہی ہے جو دوسرے شعر پر ہے اور میرا جواب بھی وہی ہے .
دیارِ غیر میں آ کر وہ کیا پھلے پھولے
رہا جو بے سَر و ساماں وطن میں رہنے تک
== یہاں بھی رہنے تک ردیف کی مجبوری جو مفہوم بدل دے گا - اوپر دی گئی بات اس پر پہ لاگر کر کے دیکھیں آپ کو ضعف ردیف نظر آجائیگا
اِس شعر میں مجھے ردیف نے واقعی تھوڑی مشکل میں ڈالا تھا . غور کیجیے کہ دوسرے مصرعے کی فطری تَوسِیع یہ ہے کہ فاعل وطن میں رہنے تک بے سَر و ساماں تھا ، لیکن وطن چھوڑنے پر نہیں رہا . یہاں میں نے قصداََ کہانی کو انجام تک نہیں پہنچایا اور پہلے مصرعے کو گول مول چھوڑ دیا ہے. اب شعر کا مفہوم یہ ہے کہ فاعل بے سَر و سامانی کی حالت میں وطن چھوڑ کر دیار غیر میں آ گیا ہے ، لیکن یہاں بھی اس كے پھلنے پھولنے کا امکان کم ہے . میری ناچیز رائے میں اِس حالت میں شعر قابل قبول ہے .
جدا ہوئے تو یہ وعدہ تمہارا یاد آیا
جدا نہ ہونگے کبھی روح تن میں رہنے تک
== یہ چلے گا
نجات نیشِ بہاراں سے دشت ہی دیگا
میں بے قرار رہونگا چمن میں رہنے تک
== یہ صحیح ہے
کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک
== یہاں بھی کھلے وہ آ کے دوسرے مصرعے کی رہنے تک ردیف سے میچ نہیں کرتا - غور کریں تو سروسمن سے پیرہن کا سفر یہاں مفقود ہے -
مگر یہ بات محض میری رائے ہو سکتی ہے کوئی اس سے اختلاف بھی کر سکتا ہے
میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ سفر كے مفقود ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے . رنگ کوئی انسان یا جانور تو ہیں نہیں کہ ان كے ’سفر‘ کی نوعیت کا ذکر ضروری ہو . شاعری میں محبوب كے پیرہن کا پھولوں كے رنگ مستعار لینا عام ہے . رنگ پھولوں سے پیرہن تک کیسے آتے ہیں ، اِس تفصیل کی کبھی ضرورت نہیں محسوس کی گئی .
بنے جو ذہن میں نقشِ جدید تو کیسے
خیالِ خوبیٔ نقشِ کہن میں رہنے تک
== یہ اچھا ہے
جلیگا خونِ جگر راہ میں بہت عابدؔ
تلاشِ منزلِ تکمیلِ فن میں رہنے تک
== یہاں بھی تک کی کوئ ضرورت نہیں - جملہ ہوگا کہ تلاشِ تکمیلِ فن میں بہت خون جلے گا - یہاں تلاش میں رہنے تک بہت خون جلے گا کی کوئ ضرورت نہیں او ر کیا جب تکمیل فن ہوجائگا تو خون نہیں جلے گا؟ وہ تو تب بھی جلے گا مگر رہنے تک کہنا ردیف کی مجبوری کی وجہ سے آپ کو کہنا پڑا اور یہی ضعف ردیف ہے
جناب اعلیٰ ، میں نے یہ دعویٰ کب کیا کہ منزلِ تکمیلِ فن مل جاتی ہے یا مل جائے گی . آپ یہی مان کر چلیے کہ نہ یہ منزل کبھی ملتی ہے نہ خونِ جگر كے جلنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے .
برا لگے میرا تجزیہ تو لاحول پڑھ کر رد کر دیجیئے گا -
آپ كے خط میں برا لگنے والی کوئی بات نہیں ہے سو لاحول کی کوئی ضرورت نہیں . :) ایک مرتبہ پِھر آپ كے تفصیلی خط کا شکریہ !
 

ارشد رشید

محفلین
جنابِ والا اس ناچیز کو برداشت کرنے کا شکریہ -
باقی میرا نقطہ نظر وہی ہے جو جنگ اخبار کے مراسلات کے کالم پر لکھا ہوتا ہے
ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں - :)

جناب میں نے اپنا تجزیہ پیش کیا آپ کو وہ صحیح نہیں لگا تو ٹھیک ہے - اب یہ بات یہاں تک ہی رہے گی - آپ کو میری نشاندہی سے اختلاف ہے تو کوئ بات نہیں آپ نے میرا نقطہ نظر جانا میں نے آپ کا - اتنا ہی درکار تھا - آپ اس غزل کے شاعر ہیں تو جو آپ کو صحیح لگے گا وہ شعر ہی اس غزل میں جگہ پائے گا -
 
بہت خوب ، عرفان بھائی!کیا اچھی کاوش ہے!
مقطع پسند آیا ۔ بہت داد!
لیکن بصد ادب و معذرت عرض ہے کہ یہ غزل آپ کے عمومی معیار تک نہیں پہنچ سکی ۔ شاید بہت پرانی غزل ہے۔ اس کی زمین بہت دشوار ہے اور اس دشواری کا اظہار تقریباً ہر ہر شعر سے ہورہا ہے۔ ردیف نبھانا اکثرمشکل ثابت ہوا۔
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک
مطلع نہ صرف یہ کہ متاثر نہیں کرسکا بلکہ اس کا مصرعِ ثانی شعر کے مجموعی معنی سے متصادم بھی نظر آیا۔ میری ناقص رائے میں غزل کا مطلع اہم ہوتا ہے کہ قاری کی توجہ اور توقع اگر یہیں شکستہ ہوجائے تو پھر اس کے لیے آگے چلنا دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے شعر پر بھی چونکنا پڑا۔
میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک
شور و شر کا مطلب منفی ہوتا ہے یعنی فتنہ فساد ، لڑائی جھگڑا وغیرہ ۔ مجھے یقین ہے کہ اس شعر میں آپ یہ اعتراف نہیں کر رہے کہ انجمن میں جو بھی دنگا فساد تھا اس کی جڑ آپ ہی تھے :) :) :) لیکن اس شعر کا سیدھا سیدھا اور صاف مطلب یہی نکل رہا ہے۔اسے دیکھ لیجیے۔ مجھے اس شعر میں پیرایۂ اظہار بدلنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ :)
ظہیر بھائی ، حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ ! جزاک اللہ . یہ غزل بہت زیادہ نہیں ، کوئی تِین چار سال پرانی ہے . لیکن زمانے سے کیا ہوتا ہے . مجھے علم ہے کہ میری ناچیز شاعری میں آج بھی بہتری کی گنجائش ہے اور ہمیشہ رہیگی .
مطلع پر اَرْشَد صاحب کو میرا جواب دیکھ لیجئیگا . دوسرے شعر میں فتنہ و فساد کی وجہ میں ضرور ہوں ، لیکن فتنہ و فساد کو عمل میں لانے والا میں نہیں ( ویسے کبھی کبھار لگتا ہے کہ آج کی دُنیا میں فتنہ و فساد ہی اپنا لینا چاہیے . ) :) یہاں کہنا یہ چاہا ہے کہ اہل انجمن کو میری موجودگی گوارہ نہیں تھی اور سارا شور و شر اسی وجہ سے تھا . آپ كے تاثر سے لگتا ہے کہ یہ مفہوم صفائی سے ادا نہیں ہوا .
 
Top