غزل (شکیل احمد خان)

بیوفائی کو ہم اُن کی اِک ادا مانیں گے
گویا ہم اِس کو ہی دستورِ وفا مانیں گے

آرزوؤں کے گہر ہونے لگے جو بے آب
سینت کر رکھنے کی ہم اِس کو سزا مانیں گے

’’راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے‘‘
لوگ عشاق کی اب فکرِ رسا مانیں گے!

عکس کی موج اُٹھے ، دیکھے ہمیں صحرا میں
ہم اِسے باعثِ خوشنودیٔ ما ما نیں گے

جب نہ پروانوں میں ہو گرمیٔ کردار کہیں
پھر اُجالوں کو وہ کیوں قبلہ نُما مانیں گے

ذوق جب اُن میں نہیں ناصیہ فرسائی کا
نوکِ شعلہ کو وہ کیوں سجدے کی جا مانیں گے

شمع افسردہ گھری بیٹھی ہے ان وسوسوں میں
ہوئی روشن تو یہ پروانے بُرا مانیں گے

یہ غزل آپ جو لائے ہیں شکیل احمد خان
کیوں نہیں لوگ اسے دل کی صدا مانیں گے
 
آخری تدوین:
Top