غزل : شروع کرتے ہوئے یہ خیال تھا ہی نہیں - اختر عثمان

غزل
شروع کرتے ہوئے یہ خیال تھا ہی نہیں
وہ کارِ عشق تھا اس کا مآل تھا ہی نہیں

ہزار زخم ستاروں سے جگمگاتے تھے
جگر جگر تھا بدن ، اندمال تھا ہی نہیں

وہ حسن لے گیا اس منطقے کی سمت مجھے
جہاں سرے سے گمانِ زوال تھا ہی نہیں

بس ایک لفظ کی لَو راستہ سُجھاتی تھی
کہیں چراغِ سفر کا وبال تھا ہی نہیں

وہ لب تھے اور عجب جاں بلب معاملہ تھا
سو کوئی سلسلۂ قیل و قال تھا ہی نہیں

نگاہِ دوست نے اس طور کر دیا ہموار
کہ جیسے میں کبھی بے اعتدال تھا ہی نہیں

رموزِ مملکتِ عشق سخت مشکل ہے
سو چل دیا کہ وہ میرا کمال تھا ہی نہیں
اختر عثمان
 
Top