غزل: سادگی کے چہرے پر پھر نقاب ڈالی ہے ٭ حکیم سرو سہارنپوری

سادگی کے چہرے پر پھر نقاب ڈالی ہے
دل کو دھوکہ دینے کی اک ادا نکالی ہے

ایسے پارسا بن کر اجنبی سے بیٹھے ہیں
جیسے ہم نے یہ حالت آپ ہی بنا لی ہے

ہم نے بے نوائی کی لذّتیں اٹھائی ہیں
تم نے کج کلاہی کی خوب داد پا لی ہے

اک ذرا سے ہستی پر لوگ پھول جاتے ہیں
زندگی کی ہر صورت گرچہ دیکھی بھالی ہے

میرے زخمِ دل کی بات ہو رہی تھی محفل میں
آپ کو ہوا کیا ہے؟ کیوں نظر چرا لی ہے؟

چپکے چپکے کہتا ہے، کوئی میرے سینے میں
عدل بھی مثالی ہو، ظلم تو مثالی ہے

منزلِ محبت میں سرخرو ہیں دیوانے
دل جلا لیے لیکن راہ تو اجالی ہے

اب تو قصر و زنداں میں فاصلہ نہیں کوئی
وقت کے تغیر کی ہر ادا نرالی ہے

لوگ بھانپ جاتے ہیں بے شمار پردوں میں
سروؔ رنگ روپ اس کا، اس قدر مثالی ہے

٭٭٭
حکیم سرو سہارنپوری
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top