خورشید رضوی غزل:زمیں کا رزق ہے یا سُوئے آسماں گئی ہے -خورشید رضوی

غزل
زمیں کا رزق ہے یا سُوئے آسماں گئی ہے
ہمارے گنبدِ دل کی صدا کہاں گئی ہے

ملے کہاں سے کہ اب رائیگاں نہ ہونے دوں
یہ زندگی تو مری سخت رائیگاں گئی ہے

میں دل ہی دل میں نشیمن کی خیر مانگتا ہوں
چمن کی سمت صبا یوں تو مہرباں گئی ہے

گماں یہی تھا کہ اب وہ شبیہِ خون آلود
چلی گئی تہِ دل سے مگر کہاں گئی ہے

یہ سوچتا ہوں بھٹکتی ہوی نظر سے کاش
وہیں وہیں پہ نہ جاتی جہاں جہاں گئی ہے

ہر ایک شے پہ مجھے اعتبار آنے لگا
یقیں کی لہر بہ اندازۂ گماں گئی ہے

سمجھ نہ خود کو تو اے بحرِ بیکراں تنہا
نظر بھی ساتھ ترے ہو کے بے کراں گئی ہے

ہزار ساعتِ آئندہ خون روتی ہے
یہ چشمِ نم جو کبھی سُوئے رفتگاں گئی ہے

یہ موج، اس کو چٹانوں پہ سر پٹکنا ہے
جو آبشار کی جانب رواں دواں گئی ہے

ہر ایک نیند میں ڈوبے ہوے شبستاں تک
بلا سے کوئی نہ جاگے، مگر اذاں گئی ہے
خورشید رضوی
 
Top