غزل
زمیں میں آسماں بیگم کہاں پر میں کہاں بیگم
تیری باتیں نرالی ہیں کروں کیا میں بیاں بیگم
میری ڈیوٹی ہے خدمت میں لگا رہتا ہوں بیگم کے
میں چپراسی جہاں پر ہوں ہے آفیسر وہاں بیگم
بلانے کو مجھے گھنٹی بجاتی ہیں وہ گھر میں بھی
وہ دن کو رات کہتی ہے تو میں کہتا ہوں ہاں بیگم
دباؤ پاؤں ورنہ میں تمہیں سسپنڈ کرادوں گی
مجھے کہہ کرڈراتی ہے تمہاری ماں کی ماں بیگم
یہ مانا آپ کی صورت ہے کالی رات کے مانند
مگر ہے نام کتنا خوبصورت کہکشاں بیگم