عزیز حامد مدنی غزل : دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں - عزیز حامد مدنی

غزل
دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں

کہو ستارہ شناسو فلک کا حال کہو
رُخوں سے پردہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں

ہوا کی نرم روی سے جواں ہوا ہے کوئی
فریبِ تنگ قبائی کا وقت ہے کہ نہیں

خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت
بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں

الگ سیاستِ درباں سے دل میں ہے اک بات
یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں

دلوں کو مرکزِ اسرار کر گئی جو نگہ
اسی نگہ کی گدائی کا وقت ہے کہ نہیں

تمام منظرِ کون و مکاں ہے بے ترتیب
یہ تیری جلوہ نمائی کا وقت ہے کہ نہیں​
عزیز حامد مدنی
1956ء
 
آخری تدوین:
دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں

کہو ستارہ شناسو فلک کا حال کہو
رخوں سے پردہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں

ہوا کی نرم روی سے جواں ہوا ہے کوئی
فریبِ تنگ قبائی کا وقت ہے کہ نہیں

خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت
بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں

الگ سیاستِ درباں سے دل میں ہے اک بات
یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں

دلوں کو مرکزِ اسرار کر گئی جو نگہ
اُسی نگہ کی گدائی کا وقت ہے کہ نہیں

تمام منظرِ کون و مکاں ہے بے ترتیب
یہ تیری جلوہ نمائی کا وقت ہے کہ نہیں
عزیز حامد مدنی
1956ء
نوٹ یہ غزل ریختہ پر نامکمل ہے
 
جس پر بهی ہے مگر بہت مشکل ہے مفہوم میں

خاص کر یہ شعر
دلوں کو مرکز اسرار کرگئی جو نگہ
اسی نگہ کی گدائی کا وقت ہے کہ نہیں
 
Top