غزل: دعائے وصل بہ دشتِ وفا کہے کوئی

ن

نامعلوم اول

مہمان
دعائے وصل بہ دشتِ وفا کہے کوئی​
ترے کرم سے سوا مدّعا کہے کوئی​
کہاں سے لاؤں ان آنکھوں میں ایک قطرۂِ خوں​
جسے کرشمۂِ رنگِ حنا کہے کوئی​
بہ قصدِ خونِ دل آزردگاں ہے جو کچھ ہے​
نگہ چرانے کو تیرے حیا کہے کوئی​
خرامِ ناز کو رشکِ صبا کہوں تو بنے​
فروغِ عشوۂ و رنگِ ادا کہے کوئی​
نہیں رہا تپشِ دل میں جوشِ سوزِ کہن​
بلا سے میری اسے مبتلا کہے کوئی​
بہ شہرِ لال زباناں عجب نہیں کاملؔ​
مری غزل کو اگر معجزہ کہے کوئی​
 

مہ جبین

محفلین
کہاں سے لاؤں ان آنکھوں میں ایک قطرۂِ خوں
جسے کرشمۂِ رنگِ حنا کہے کوئی
واہ واہ بہت ہی خوب
 

ظفری

لائبریرین
بہ شہرِ لال زباناں عجب نہیں کاملؔ​
مری غزل کو اگر معجزہ کہے کوئی​
بہت خوب جناب ۔۔۔ کاش ایسی غزلیں ہم بھی کہہ سکتے ۔​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہ شہرِ لال زباناں عجب نہیں کاملؔ​
مری غزل کو اگر معجزہ کہے کوئی​
بہت خوب جناب ۔۔۔ کاش ایسی غزلیں ہم بھی کہہ سکتے ۔​
آہ ظفری صاحب۔پہلے تو داد کا شکریہ۔ مزید، "کاش" والے معاملے میں میر کی زبان میں کہوں گا:

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے​
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا​
ان شعروں کے پیچھے جو محنت، تڑپ، مصائب، امتحانات، ناکامیاں اور مایوسی کے دورے ہیں، ان کے بارے میں تو صرف میں ہی جانتا ہوں! بس یہ سمجھیے کہ "دور کے ڈھول سہانے"۔​
 

شیزان

لائبریرین
نہیں رہا تپشِ دل میں جوشِ سوزِ کہن
بلا سے میری اسے مبتلا کہے کوئی

بہت اعلیٰ جی
 

ظفری

لائبریرین
ان شعروں کے پیچھے جو محنت، تڑپ، مصائب، امتحانات، ناکامیاں اور مایوسی کے دورے ہیں، ان کے بارے میں تو صرف میں ہی جانتا ہوں! بس یہ سمجھیے کہ "دور کے ڈھول سہانے"۔
محنت ، مصائب ، امتحانات ، ناکامیاں اور مایوسیاں تو ہر کسی کا مقدر ہوتیں ہیں ۔ مگر اندازِ بیاں کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
محنت ، مصائب ، امتحانات ، ناکامیاں اور مایوسیاں تو ہر کسی کا مقدر ہوتیں ہیں ۔ مگر اندازِ بیاں کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔
میں اتفاق کرتا ہوں۔ بہت سوں کے حصے میں سب کچھ سہہ کر بھی کچھ نہیں آتا۔ ہم سے ہزاروں گنا زیادہ غم سہنے والے بھی اسی دنیا میں ہوتے ہیں۔ جنھیں مصائب کے بدلے میں بھی کچھ نہیں ملتا۔ میں تو پھر کچھ کہہ لکھ کر دل کا بوجھ اتار ڈالتا ہوں۔ وہ بھی ہیں جو سہتے ہیں، مگر کچھ کہہ نہیں سکتے۔

تقدیر کے کھیل بھی عجیب ہیں۔ انسان کا ذہن سمجھنے سے عاجز ہے۔ میری شاعری کا شاید آدھے سے زیادہ حصہ اسی حیرت کا نتیجہ ہے۔
 
دعائے وصل بہ دشتِ وفا کہے کوئی
ترے کرم سے سوا مدّعا کہے کوئی
خرامِ ناز کو رشکِ صبا کہوں تو بنے
فروغِ عشوۂ و رنگِ ادا کہے کوئی
نہیں رہا تپشِ دل میں جوشِ سوزِ کہن
بلا سے میری اسے مبتلا کہے کوئی
کیا ہی کہنے واہ واہ مطلع سے مقطع تک غزل نے اپنے سحر سے نکلنے نہ دیا​
بہت ہی خوب غزل داد حاضر ہے​
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ​
 

ظفری

لائبریرین
صحیح کہا آپ نے ۔۔۔۔۔ لکھ کر بوجھ اتارنے والی بات سمجھ آتی ہے ۔ مگر جب بھی آپ کچھ لکھیں ضروری تو نہیں ہے کہ وہ سب کو سمجھ بھی آتی ہو ۔ یا واقعی بوجھ اتر بھی جاتا ہو ۔ میری بے وزن شاعری تو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ ذرا تصویر کے اس رخ پر بھی نظرِ کرم ڈالیئے کہ بوجھ پھر بھی نہیں اُترتا ۔

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/چند-حسینوں-کے-خطوط-،-چند-تصویرِ-بُتاں.24798/
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
صحیح کہا آپ نے ۔۔۔ ۔۔ لکھ کر بوجھ اتارنے والی بات سمجھ آتی ہے ۔ مگر جب بھی آپ کچھ لکھیں ضروری تو نہیں ہے کہ وہ سب کو سمجھ بھی آتی ہو ۔ یا واقعی بوجھ اتر بھی جاتا ہو ۔ میری بے وزن شاعری تو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ ذرا تصویر کے اس رخ پر بھی نظرِ کرم ڈالیئے کہ بوجھ پھر بھی نہیں اُترتا ۔

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/چند-حسینوں-کے-خطوط-،-چند-تصویرِ-بُتاں.24798/

اسے بھی دیکھتا ہوں۔ تسلی سے پڑھ کر جواب دوں گا۔

ویسے میں کافی سارے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کر رہا ہوں۔ ان کے کام میں نکھار لانے کے لیے۔ آپ کو بھی ضرورت محسوس ہو تو بے دھڑک بتائیے گا۔ میری سوچ ہے کہ شاید اس طرح میں اردو شاعری کے احیاء میں کوئی کردار ادا کر سکوں۔

ایک نیا سلسلہ بھی جلد شروع کروں گا۔ شعر کے اسرار و رموز پر ۔ اور یہ کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے۔ اس کے کیا لوازمات ہوتے ہیں۔ اور دوسری بہت سی لطیف باتیں۔ جنھیں آج کوئی نہیں جانتا۔ جلد اپنے بلاگ پر لکھنا شروع کروں گا۔
 

متلاشی

محفلین
بہت خوب جناب کاشف عمران صاحب۔۔۔!
دعائے وصل بہ دشتِ وفا کہے کوئی
ترے کرم سے سوا مدّعا کہے کوئی
کہاں سے لاؤں ان آنکھوں میں ایک قطرۂِ خوں
جسے کرشمۂِ رنگِ حنا کہے کوئی
 
Top