اکبر الہ آبادی غزل - خودی بھی مجھ سے جب واقف نہ تھی میں تب سے بسمل ہوں-اکبر الہٰ آبادی

غزل

خودی بھی مجھ سے جب واقف نہ تھی میں تب سے بسمل ہوں
ازل سے کشتہِ تیغِ نگاہِ نازِ قاتل ہوں

دلا کیوں کر میں اس رخسار روشن کے مقابل ہوں
جسے خورشید محشر دیکھ کر کہتا ہے میں تل ہوں

خمِ گیسو پر اک رشک پری کے دل سے مائل ہوں
مجھے بھی ان دنوں سودا ہے دیوانوں میں داخل ہوں

نہیں معلوم اس کو تیری چتون سے مقابل ہوں
مجھے واعط سمجھتا ہے کہ میں مرنے سے غافل ہوں

نگاہِ ناز سے تم نے اگر دیکھا نہیں مجھ کو
تو پھر میں کیوں تڑپتا ہوں نہ زخمی ہوں نہ بسمل ہوں

فغاں کیسی کہ حرفِ شکوہ بھی لب پر نہ آئے گا
یہ جب تک تم نہ کہ لو گے وفا کا تیری قاتل ہوں

رہِ الفت وہ کوچہ ہے قضا بھی جس سے ڈرتی ہے
قدم رکھتا ہے دل اس میں نثارِ ہمتِ دل ہوں

جو یوں ہی لحظہ لحظہ داغِ حسرت کی ترقی ہے
عجب کیا رفتہ رفتہ میں سراپا صورتِ دل ہوں

مدد اے رہنمائے گمرہاں اس دشتِ غربت میں
مسافر ہوں پریشاں حال ہوں گم کردہ منزل ہوں

یہ میرے سامنے شیخ و برہمن کیا جھگڑتے ہیں
اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہوں دونوں کا قائل ہوں

اگر دعوائے یک رنگی کروں ناخوش نہ ہو جانا
میں اس آئینہ خانہ میں ترا عکسِ مقابل ہوں

توقع رہتی ہے دم کہ دم لینے کی مہلت ہے
معاذ اللہ اپنی موت سے کس درجہ غافل ہوں

رسائی زلف نے پائی قدم تک اب وہ کیوں آئیں
بہانہ خوب ہاتھ ایا کہ پابندِ سلاسل ہوں

خبر لیتے ہیں اس کی جس کو بیگانہ سمجھتے ہیں
مجھے کب پوچھتے ہیں میں تو اک تحصیلِ حاصل ہوں

زمینِ شعر جس سے آسمان بن جائے اے اکبر
علوئے طبع سے ایسی غزل پڑھنے پہ مائل ہوں

اکبر الہٰ آبادی​
 
Top