غزل: خشک ماحول اور بھیگی بارشیں

غزل

دے چکی ہیں رنگ نیلی بارشیں
خشک ماحول اور بھیگی بارشیں

شہر کی نم ناک گیلی بارشیں
اور صحرا کی جھلستی بارشیں

پائے کوباں ان کو لینے جائیے
یوں نہیں آئیں گی روٹھی بارشیں

پھر کبھی صحرا میسر ہو نہ ہو
آج دفنا دیجے اپنی بارشیں

میری دنیا میں ہیں سورج اور دھوپ
کیسا دریا، اور کیسی بارشیں؟!

میرے منہ سے شعر ایسے ہیں، کہ ہوں
تلخ بادل، اور میٹھی بارشیں

سب کے سب میرے ہیں، چاند اور چاندنی
اور سورج کی سنہری بارشیں

میرے اندر آگ، ٹھنڈی آگ ہے
کیا کریں گی اس کا ٹھنڈی بارشیں؟!

میرے سارے رنگ ان میں بہہ گئے
میرے مولا، ایسی کالی بارشیں!؟

ان سے اپنے آپ کو گیلا رکھو
لڑکیاں ہیں سانس لیتی بارشیں

میں اگر صحرا کی جانب دوڑتا
دور رہ جاتی بہت سی بارشیں

پھر سڑک کے بیچ عریاں ہو گئیں
میرے سائے میں نہاتی بارشیں

بادلوں سے رات، میں تیرے لئے
مانگ لایا ایک مٹھی بارشیں

ہاں، تو پھر اس بار کے طوفان سے
دھل رہی ہیں آج اگلی بارشیں

تیرے اندر کے تلاطم سے حجازؔ
ڈر رہی ہیں چند بچی بارشیں

مہدی نقوی حجازؔ
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
میرے منہ سے شعر ایسے ہیں، کہ ہوں
تلخ بادل، اور میٹھی بارشیں

بہت خوب۔ کیا بات ہے جناب۔ شاد رہیں
 
Top