امجد اسلام امجد غزل: خزاں کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں

خزاں کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں
شجر مجبوریاں پہنے ہوئے ہیں

یہ کیسی فصلِ گل آئی چمن میں
پرندے خوف سے سہمے ہوئے ہیں

ہواؤں میں عجب سی بےکلی ہے
دلوں کے سائباں سمٹے ہوئے ہیں

ہمارے خواب ہیں مکڑی کے جالے
ہم اپنے آپ میں الجھے ہوئے ہیں

دمکتے، گنگناتے موسموں کے
لہو میں ذائقے پھیلے ہوئے ہیں

مری صورت زمیں کے سارے منظر
ترے دیدار کو ترسے ہوئے ہیں

مثالِ نقشِ پا، حیران تیرے!
ہوا کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہیں

نگاہوں سے کہو ہم کو سمیٹیں
مری جاں ہم بہت بکھرے ہوئے ہیں

ادھوری خواہشوں کا غم نہ کرنا
کہ سارے خواب کب پورے ہوئے ہیں

سمندر آسماں اور سانس میرا
تری آواز پہ ٹھہرے ہوئے ہیں

ہر اک رستے پہ کہتی ہیں یہ نظریں
یہ منظر تو کہیں دیکھے ہوئے ہیں

ستارے آسماں کے دیکھ امجدؔ
کسی کی آنکھ میں اترے ہوئے ہیں

٭٭٭
امجد اسلام امجدؔ
 
Top