غزل : حصارِ ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں - سرمد صہبائی

غزل
حصارِ ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں
کوئی رستہ نہیں ہے، اور سفر رکھے گئے ہیں

گہر آتا ہے آغوشِ صدف میں بوند بن کر
زمین و آسماں میں نامہ بر رکھے گئے ہیں

مصور نقشِ غفلت میں ہوا ہے شہرِ جاناں
مکیں ہم اس میں خود سے بے خبر رکھے گئے ہیں

بسنتی دُھوپ آنگن میں سمٹ کر سو رہی ہے
ہَوا کے دوش پر پیڑوں کے سر رکھے گئے ہیں

ازل سے بھاگتا ہُوں اپنے ہی سائے کے پیچھے
تعاقب میں مِرے، شام و سحر رکھے گئے ہیں

ادائے دلبراں ٹھہری ہے رسمِ دلفروشی
نمائش پر دل و جان و جگر رکھے گئے ہیں

یہ کیسا کھیل ہے، دُشوار جینے کے جتن ہیں
مگر مرنے کے گُر آسان تر رکھے گئے ہیں

ادا ہوں گے ہماری بے بہا لا حاصلی میں
وہ سارے قرض، جو اِس جان پر رکھے گئے ہیں

چڑھا ہے دن نکل آئے ہیں بازارں میں سائے
مگر جو جسم تھے سارے وہ گھر رکھے گئے ہیں

چنا ہے ریزہ ریزہ ہم نے اپنی خواہشوں کو
یہ ٹوٹے آئینے تھے جوڑ کر رکھے گئے ہیں

فگارِ زخم ، نقشِ داغ ، حسنِ دل فگاری
ہمارے بخت میں سارے ہنر رکھے گئے ہیں

لکھے گا کون یا رب لذتِ بے اختیاری
سروں پر کاتبینِ خیر و شر رکھے گئے ہیں

ہے تعویذِ سخن کا معجزہ سرمدؔ کہ ہم پر
طلسمِ جاہ و منصب بے اثر رکھے گئے ہیں
سرمدؔ صہبائی
 
Top