غزل: حصارِ ذات سے گر ہَم نکل نہیں سکتے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک پرانی غزل پیش کر رہا ہوں . حسب معمول آپ کی رائے کا انتظار رہےگا .


حصارِ ذات سے گر ہَم نکل نہیں سکتے
دیے ہمارے تَفَکُّر كے جل نہیں سکتے

ہے انقلا بِ زمانہ کا خواب بے معنی
ہَم اپنے آپ کو جب تک بَدَل نہیں سکتے

کُھلی فضا کی ضرورت جنہیں ہو وہ پودے
گھنے درخت كے سائے میں پھل نہیں سکتے

اُنہی کی راہ میں پتھر بچھائے جاتے ہیں
ذرا سی چوٹ جو کھا کر سنبھل نہیں سکتے

غبارِ راہ کی مانند چھوٹ جاتے ہیں
جو لوگ چال زمانے کی چل نہیں سکتے

وہ بن كے زہر دِل و جاں میں پھیل جاتے ہیں
براہِ چشم جو آنسو نکل نہیں سکتے

کئی تو دفن ہی رہتے ہیں دِل میں ، اے عابؔد
کہ سارے درد تو شعروں میں ڈھل نہیں سکتے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
مدیر کی آخری تدوین:
ماشاء اللہ عمدہ غزل ہے۔
ایک مقام پر کچھ تردد ہوا۔ محاورہ تو ہمیشہ پھلنا پھولنا سنا ہے ۔۔ ۔مجرد پھلنا کیا درست ہوگا؟
راحل صاحب ، بہت نوازش ! آپ نے بجا فرمایا ، ’پھلنا‘ عام طور پر ’پھولنا‘ كے ساتھ استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہ لفظ تنہا بھی مستعمل ہے . ایک مثال دیکھیے .
سیل غم رکھتا ہے یوں میرے ارادوں کو جواں
جس طرح سیلاب میں پھلتے ہیں پودے دھان کے (حزیں لدھیانوی)
 
Top