سیماب اکبر آبادی غزل : جو ہم نظام نمو خانۂ وفا کرتے - علامہ سیمابؔ اکبر آبادی

غزل
جو ہم نظام نمو خانۂ وفا کرتے
تو آنسوؤں سے محبت کے ، دل بنا کرتے

یہ فرض کیوں نہ قدم پر ترے ادا کرتے
نمازِ عشق تھی سجدے زمیں پہ کیا کرتے

ہر ایک سانس تھی رومانِ نو کی اک تمہید
کہاں سے اپنے فسانے کی ابتدا کرتے

خراب ہوتی نہ یوں خاکِ شمع و پروانہ
نہیں کچھ اور تو انسان ہی بنا کرتے

مزاجِ عشق میں ہوتا اگرسلیقۂ ناز
تو آج اس کے قدم پر بھی سر جھکا کرتے

بلا کشانِ اسیری کی راہ بند نہ تھی
کسی دن ایک فغانِ قفس کُشا کرتے

یہ کیا کیا کے چلے آئے مدعا بن کر
ہم آج حوصلۂ ترکِ مدعا کرتے

مری رہائی کا احباب میں تھا ذوقِ فضول
قفس کو پنجۂ دستور سے رہا کرتے

سُنا یہ تھا کہ محبت ہے بے حد و انجام
روا نہ تھا کہ محبت کو حق ادا کرتے

جُھکا کے سر بہ ادائے نیاز بیٹھ گئے
غرورِ حسن کو بے اعتبار کیا کرتے

شریکِ حال نہ ہوتی جو کاوشِ امروز
کبھی کبھی غمِ ماضی پہ رو لیا کرتے

کوئی یہ شکوہ سرایانِ جَور سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟

غزل ہی کہہ لی سنانے کو حشر میں سیمابؔ
پڑے پڑے یونہی تنہا لحد میں کیا کرتے
علامہ سیمابؔ اکبر آبادی
 
آخری تدوین:
Top