غزل : جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوا سب بھلا ہوا

عظیم

محفلین



جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوا سب بھلا ہوا
دیکھوں تو اپنے آپ کو کیا تھا میں، کیا ہوا

چلتا رہا ہوں ایک ہی جانب جو خوب تھا
یہ بھی درست تھا کہ نہ پل بھر کھڑا ہوا

کھِلنے لگا ہے دل کا بھی غنچہ کچھ آج کل
مدت سے رہ رہا تھا یہ ہر دم جلا ہوا

شاید اسی کو کہتے ہیں اپنے خدا کا خوف
رہتا ہے سانس سانس پہ بندہ ڈرا ہوا

میں کون تھا کہ مجھ پہ بھی اس نے نگاہ کی
یہ دردِ عاشقی مجھے کیوں کر عطا ہوا

کوئی گنہ تو دور یوں لگتا ہے اب مجھے
ہلکا سا پاؤں دوسری جانب خطا ہوا

اپنا بھی یوں بنایا ہے مجھ کو کسی نے آج
جیسے کہ تن بدن پہ ہو رسا کسا ہوا

دیکھوں تو اس کے واسطے سب کچھ بھلا کے میں
چھوڑوں جو چھوڑنے کو ہے تھوڑا بچا ہوا

آنکھوں میں بس گیا ہے اچانک وہ شخص، جو
کب سے تھا میرے دل میں نہ جانے، رچا ہوا



 
Top