غزل
جب کبھی مجھ پہ زمانے نے اٹھائے پتھر
چوٹ دے دے کے تری یاد دلائے پتھر
گویا مجنوں کی روایت ہے کہ ہر شخص یہاں
شہر میں پھرتا ہے دامن میں چھپائے پتھر
ہم نے سچ بات کے کہنے کو زباں کیا کھولی
ہائے پھر کیا تھا کہ دنیا نے اٹھائے پتھر
چھوڑئیے غیر کو اب غیر تو پھر غیر ہی تھے
تم تو اپنے ہی تھے تم نے بھی اٹھائے پتھر
جمع کر رکھے ہیں لیکن یہ بتاؤں کس کو
جتنے بھی آئے ترے ہاتھ سے آئے پتھر
جن سے پھولوں کے بچھانے کی تھی امید قدیر
میری راہوں میں انہوں نے ہی بچھائے پتھر