غزل)(تک بندی) برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
نہ کیوں ہوں سرخرو پیشِ خدا ہم
نہیں رکھتے تکبر و انا ہم
دعاگو ہم ہیں دشمن کے بھی حق میں
نہیں دیتے کسی کو بدعا ہم
منافق کب ہیں جو رسوا نہ ہوتے
ہیں آخر کو گرفتارِ وفا ہم
اگر وہ ہمسفر ٹھرے ہمارا
تو طے کر لیں یہ مشکل راستہ ہم
تری مانند نہیں مجرم وفا کے
یہ دعوٰی بھی نہیں... ہیں پارسا ہم
بھلا تجھ سے تقابل کیا ہمارا
تو خنجر ہے.. تو ہیں بسمل نما ہم
تری رسوائی کا ڈر ہے وگرنہ
تجھے دکھلا ہی دیتے آئینہ ہم
جو نذرِ گردشِ حالات ہوجائے
اسے تسلیم کرلیں پیشوا ہم؟
خودی اپنی بھلا بیٹھے ہیں فائق
مگر ان سے ہیں اب تک آشنا ہم
 
اچھی کوشش۔۔۔۔
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن۔۔اسی بحر میں کلام۔۔۔۔
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا (غزل) - ابراہیم ذوق
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا (غزل) - مرزا اسد اللہ خان غالب
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری (غزل) - میرا جی
 
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا (غزل)
از ابراہیم ذوق

اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا
مقدّر پر ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا نہ پایا
کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا
دہن پایا لبِ گویا نہ پایا
نظیر اس کی کہاں عالم میں اے ذوق
کہیں ایسا نہ پائے گا نہ پایا
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
 
ہیں سنتا دلِ ناشاد میری (غزل)
از میرا جی

نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری
رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری
نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری
میں تم سے عرض کرتا ہوں بہ صد شوق
سنو گر سن سکو روداد میری
مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری
کبھی آئی تجھے بھی یاد میری
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
 
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا (غزل)
از مرزا اسد اللہ خان غالب

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ اناَ البحر
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
 

عباد اللہ

محفلین
نہ کیوں ہوں سرخرو پیشِ خدا ہم
بہت عمدہ پیارے
اچھی کوشش۔۔۔۔
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن۔۔اسی بحر میں کلام۔۔۔۔
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا (غزل) - ابراہیم ذوق
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا (غزل) - مرزا اسد اللہ خان غالب
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری (غزل) - میرا جی

اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا (غزل)
از ابراہیم ذوق

اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا
مقدّر پر ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا نہ پایا
کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا
دہن پایا لبِ گویا نہ پایا
نظیر اس کی کہاں عالم میں اے ذوق
کہیں ایسا نہ پائے گا نہ پایا
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن

ہیں سنتا دلِ ناشاد میری (غزل)
از میرا جی

نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری
رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری
نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری
میں تم سے عرض کرتا ہوں بہ صد شوق
سنو گر سن سکو روداد میری
مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری
کبھی آئی تجھے بھی یاد میری
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا (غزل)
از مرزا اسد اللہ خان غالب

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ اناَ البحر
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
سید صاحب ایک ہی لنک شئیر کر دیتے خیر پھر بھی عمدہ کاوش ہے :)
 

الف عین

لائبریرین
نہ کیوں ہوں سرخرو پیشِ خدا ہم
نہیں رکھتے تکبر و انا ہم
۔۔ دوسرا مصرع دیکھیں۔ واو عطف بحر میں نہیں آتی۔ ’اور‘ مکمل کر دینے سے ’اُر‘ بھی اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدل دو میرے خیال میں۔

دعاگو ہم ہیں دشمن کے بھی حق میں
نہیں دیتے کسی کو بدعا ہم
۔۔دعا گو ہونا محورے سے بہتر ہے کہ یوں کہو
دعا کرتے ہیں۔۔۔۔

تری مانند نہیں مجرم وفا کے
یہ دعوٰی بھی نہیں... ہیں پارسا ہم
۔۔مانند مکمل وزن میں نہیں آتا۔ دال کے بغیر آ رہا ہے۔ ’ترے جیسے‘ یا کچھ اور الفاظ استعمال کرو۔
باقی ٹھیک ہیں اشعار
 

محمد فائق

محفلین
اچھی کوشش۔۔۔۔
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعولن۔۔اسی بحر میں کلام۔۔۔۔
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا (غزل) - ابراہیم ذوق
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا (غزل) - مرزا اسد اللہ خان غالب
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری (غزل) - میرا جی
ممنون
 

محمد فائق

محفلین
[QUOعباد اللہ, post: 1861759, member: 13489"]بہت عمدہ پیارے

بہت بہت شکریہ عباد بھائی





سید صاحب ایک ہی لنک شئیر کر دیتے خیر پھر بھی عمدہ کاوش ہے :)[/QUOTE]
بہت شکریہ
 

محمد فائق

محفلین
نہ کیوں ہوں سرخرو پیشِ خدا ہم
نہیں رکھتے تکبر و انا ہم
۔۔ دوسرا مصرع دیکھیں۔ واو عطف بحر میں نہیں آتی۔ ’اور‘ مکمل کر دینے سے ’اُر‘ بھی اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدل دو میرے خیال میں۔

دعاگو ہم ہیں دشمن کے بھی حق میں
نہیں دیتے کسی کو بدعا ہم
۔۔دعا گو ہونا محورے سے بہتر ہے کہ یوں کہو
دعا کرتے ہیں۔۔۔۔

تری مانند نہیں مجرم وفا کے
یہ دعوٰی بھی نہیں... ہیں پارسا ہم
۔۔مانند مکمل وزن میں نہیں آتا۔ دال کے بغیر آ رہا ہے۔ ’ترے جیسے‘ یا کچھ اور الفاظ استعمال کرو۔
باقی ٹھیک ہیں اشعار
رہنمائی کے لیے شکریہ سر

آگر مطلع یوں کہا جائے تو درست رہے گا؟
رہیں گے سرخرو پیشِ خدا ہم
کچل دیں گر ذرا اپنی انا ہم

دعا کرتے ہیں دشمن کے بھی حق میں


نہیں مجرم وفا کے مثل تیرے
یہ مصرع اب درست ہے سر
 
Top