غزل : تُو بہت روکے گی لیکن میں جُدا ہو جاؤں گا - حسن عباس رضا

غزل
تُو بہت روکے گی لیکن میں جُدا ہو جاؤں گا
زندگی ، اک روز میں تجھ سے خفا ہو جاؤں گا

آخری سیڑھی پہ جا کر تُو پکارے گی مجھے
اور میں نیچے کھڑا تری صدا ہو جاؤں گا

تُو مصلے پر مری نیت تو باندھے گی ، مگر
میں نمازِ عشق ہُوں تجھ سے قضا ہو جاؤں گا

چاہتوں کے دائرے میں آؤ دوڑیں ایک ساتھ
تُو نے مجھ کو چُھو لیا تو میں ترا ہو جاؤں گا

خود کو اک دن بانٹ دوں گا دشمنوں کے درمیاں
کم سے کم قیدِ اَنا سے تو رہا ہو جاؤں گا

سانپ اور سیڑھی کے اُلجھے کھیل میں اک روز میں
درمیانی مرحلے میں لا پتا ہو جاؤں گا

میں جسے کرتا رہا اپنی دعاؤں میں شمار
کیا خبر تھی میں اُسی کی بد دعا ہو جاؤں گا

بے وفائی کا دیا اس نے حسن طعنہ مجھے
اور اب میں احتجاجاََ بے وفا ہو جاؤں گا
حسن عباس رضا

 
Top