غزل : تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے - وحیدؔ اختر

غزل
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے

عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے

دن میں بکھرا ہوں بہت رات سمیٹے گی مجھے
تو بھی آ جا تو مری ذات مکمل ہو جائے

نیند بن کر مری آنکھوں سے مرے خوں میں اتر
رت جگا ختم ہو اور رات مکمل ہو جائے

میں سراپا ہوں دعا تو مرا مقصود دعا
بات یوں کر کہ مری بات مکمل ہو جائے

ابر آنکھوں سے اٹھے ہیں ترا دامن مل جائے
حکم ہو تیرا تو برسات مکمل ہو جائے

ترے سینے سے مرے سینے میں آیات اتریں
سورۂ کشف و کرامات مکمل ہو جائے

تیرے لب مہر لگا دیں تو یہ قصہ ہو تمام
دفترِ طولِ شکایات مکمل ہو جائے

میکدے غرق ہوں ، آنکھوں سے وہ نشہ برسا
یوں خرابیِ خرابات مکمل ہو جائے

آدم و خاک سے گر جوڑ لے رشتہ اپنا
شجرِ نورِ سماوات مکمل ہو جائے

میرے شعلے سے ترا آئینۂ تن جو ملے
مقصدِ گردشِ حالات مکمل ہو جائے

تجھ کو پائے تو وحیدؔ اپنے خدا کو پا لے
کاوشِ معرفتِ ذات مکمل ہو جائے
وحیدؔ اختر
1975ء
 
Top