غزل: تو بھی ایک انساں ہے آج کے زمانے کا

تو بھی ایک انساں ہے آج کے زمانے کا
شوق ہو مجھے پھر کیوں تجھ کو آزمانے کا ؟

میں نہیں ہوں وہ پنچھی جو شکار ہو جائے
چھوڑ دے خیال اب تو جال میں پھنسانے کا

مجھ کو تو وفا کی اب ان سے بھی نہیں امید
حکم جانتے ہیں جو عہد نہ نبھانے کا

عشق و پیار کے پھندے میں نہیں پھنسوں گا میں
خواب دیکھتے ہو کیوں مجھ سے دل لگانے کا

بحر جہل میں ان کے بچے بھی تو ڈوبے ہیں
مشغلہ جو رکھتے ہیں پڑھنے اور پڑھانے کا

کوئی مجھ سے نہ پوچھے حال گلشنِ ویراں
حوصلہ نہیں مجھ میں ساز غم بجانے کا

وہ بھی خود کو کہتے ہیں امن کے علمبردار
پیشہ جن کا ہے ثاقب بستیاں جلانے کا۔
 
آخری تدوین:
مجھ کو تو وفا کی اب ان سے بھی نہیں امید
حکم جانتے ہیں جو عہد نا نبھانے کا


کوئی مجھ سے نا پوچھے حال گلشنِ ویراں
حوصلہ نہیں مجھ میں ساز غم بجانے کا
مندرجہ بالا دونوں اشعار میں ’’نا‘‘ کے بجائے ’’ نہ‘‘ کا محل ہے شاید؟
 
Top