غزل : تم جو کہتے ہو وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو - اختر عثمان

غزل
تم جو کہتے ہو وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو
ہنرِ حرفِ برہنہ نہیں آتا مجھ کو

اڑا پھرتا ہوں میں صحرا میں بگولا کی طرح
قیس رہتا رہے، رہنا نہیں آتا مجھ کو

میں ہوں پایاب کہ آہستہ روی خو ہے مری
موجِ یک طَور میں بہنا نہیں آتا مجھ کو

کیا جو لکھتا ہوں سب اوروں کی تمنائیں ہیں
کیا جو کہتا ہوں وہ سہنا نہیں آتا مجھ کو

تمہیں زیبا ہے، مبارک ہو یہ پوشاکِ شہی
تم نے جیسے اسے پہنا، نہیں آتا مجھ کو

پھر کہیں ڈوب گیا ماہِ دو ہفتہ اخترؔ
میں چمکتا ہوں کہ گہنا نہیں آتا مجھ کو
اختر عثمان
 
Top