غزل: تاخیر تم نے کی ہے جو خط کے جواب میں

عزیزانِ گرامی، تسلیمات!

بہت سال پہلے جوشِ شباب میں تضمینِ غالبؔ کی جرأت کر بیٹھا تھا۔ یوں تو غزل میں کئی اشعار تھے، مگر غالبؔ کی زمین کی حرمت کے پیش نظر ان میں سے بیشتر قلم زد کردیئے۔ تضمین کا حق تو شاید یہ بچے کچھے شکستہ اشعار بھی نہیں ادا کرپائیں گے، پھر بھی آپ احباب کی بصارتوں کی نذرکرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ امیدہے آپ اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاخیر تم نے کی ہے جو خط کے جواب میں
تم کو خبر ہے کچھ، میں رہا کس عذاب میں!

اے ماہتاب! دھوم تری تب تلک ہی ہے
جب تک چھپا ہوا ہے وہ عارض نقاب میں

طے کس طرح ہوا، کسے معلوم، فاصلہ
ہم نے تو پاؤں ہی تھا رکھا بس رکاب میں!

دیکھو، مزاجِ ناز پہ گزرے نہ یہ گراں
کل دیکھا انہیں شب کو جو بے پردہ خواب میں!

پوشیدہ اک غرض تھی مری، پارسائی میں
میں جانتا تھا تم ہی ملو گے ثواب میں

ہم دیکھتے ہیں راہ تمہاری ابھی تلک
تم کھو گئے نجانے کہاں آب و تاب میں

راحلؔ عدوئے جاں ہے تمہارا اگر وہ شخص!
یاد اس کو کیوں کئے ہو شبِ ماہتاب میں؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی کاوش ہے راحل بھائی ۔ لیکن یہ غزل نظر ثانی کی متقاضی ہے ۔
چوتھے شعر میں وزن کا مسئلہ ہے ۔ دوسرے اور تیسرے شعر میں اتنی تعقید اور وہ بھی بلا ضرورت۔ الفاظ کی نشست بدلئے ، ٹھیک ہوجائیں گے ۔ پانچویں میں ثواب کے بجائے اجر یا صلہ کا محل ہے ۔ ثواب کا لفظ اس طرح استعمال کرنا ٹھیک نہیں ۔ مقطع میں اسے یاد "کیوں کئے ہو" درست نہیں ۔ اسے یاد کیوں کیا ہے معیاری اردو ہے ۔
ایک اور بات یہ کہ آپ کی شاعری میں اکثر و بیشتر " تک" کے بجائے تلک کا استعمال نظر آتا ہے ۔ تلک اب تقریباً متروک ہوچلا ہے ۔ کہیں کہیں یا کبھی کبھی شعری ضرورت کے تحت استعمال کرلیا جائے تو مضائقہ نہیں ۔ لیکن اس کو معمول بنانا درست نہیں ۔ غزل کی زبان نفاست مانگتی ہے ۔
 
مکرمی ظہیرؔ صاحب، آداب۔
سب سے پہلے تو آپ کی توجہ اور حوصلہ افزائی کے لئے ممنون و متشکر ہوں۔
تعقید کی جانب آپ کا اشارہ عین مناسب ہے، بیس اکیس سال کی عمر میں کون ان باریکیوں کے بارے سوچتا ہے، سو ہم سے بھی یہاں لازم خطا ہوئی ہوگی اور ان شاء اللہ درستی کی کوشش کریں گے۔

چوتھے شعر میں وزن کا مسئلہ ہے ۔
یہاں آپ کی مزید توجہ کا طالب ہوں۔ میں نے دوبارہ تقطیع کرکے دیکھی، مگر مسئلہ کا مقام پہچان نہیں پارہا۔ ذیل میں اپنی تقطیع لکھ رہا ہوں، افاعیل کو منفصل اس لئے لکھا ہے کہ اگر میں نے کسی مقام پر اسقاطِ حروف میں غلطی کی ہو تو آسانی سے پکڑ میں آجائے۔

taqti.jpg

۔ مقطع میں اسے یاد "کیوں کئے ہو" درست نہیں ۔ اسے یاد کیوں کیا ہے معیاری اردو ہے ۔
سر تسلیم خم جناب، آپ درست فرماتے ہیں، بس کبھی کبھار مخصوص کیفیت کی ترجمانی کے لئے ایسا لہجہ اختیار کرلیتا ہوں اس لئے درگزر فرمائیے۔

یک اور بات یہ کہ آپ کی شاعری میں اکثر و بیشتر " تک" کے بجائے تلک کا استعمال نظر آتا ہے ۔ تلک اب تقریباً متروک ہوچلا ہے ۔ کہیں کہیں یا کبھی کبھی شعری ضرورت کے تحت استعمال کرلیا جائے تو مضائقہ نہیں ۔ لیکن اس کو معمول بنانا درست نہیں ۔ غزل کی زبان نفاست مانگتی ہے ۔
حضرت، بصد احترام یہاں آپ سے اختلاف کی جرأت کررہا ہوں۔ ویسے بیاض میں تو کوئی دو ڈھائی سو غزلیں اور نظمیں موجود ہیں، یہ محض اتفاق ہے کہ جو کچھ اب تک یہاں پیش کیا اس میں ’’تلک‘‘ کی افراط نظر آتی ہے :)
خیر، ایک مرتبہ پھر جرأت رندانہ کے لئے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اس عاجز کو ذاتی طور پر ’تک‘ کے مقابلے میں ’’تلک‘‘ زیادہ خوشنما اور غنائیت سے بھرپور محسوس ہوتا ہے اس لئے بندہ کے یہاں اس کا استعمال بھی شاید معمول سے زیادہ ہو۔ شاعری میں اس کا ترک ہوا ہو تو ہو، مگر ہمارے بڑے بزرگ اب بھی عام بول چال میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جس لفظ کو غالبؔ جیسے استاد نے برتا ہو، اور زبان کو ناگوار بھی نہ گزرتا ہو اسے زمانے کی شکست و ریخت کے حوالے کرکے اس سے دستبردار ہونے کے بجائے، رواج دینا چاہیئے۔ یہی مزاج میرا ’’نے‘‘ کے بارے میں بھی ہے (اگرچہ میں نے خود اس لفظ کو شاید ہی کبھی برتا ہو)۔ بہرحال، یہ میری حقیر دوکوڑی کی رائے ہے، کوئی سند تو نہیں سو یہاں بھی درگزر کی درخواست ہے۔

ایک مرتبہ پھر آپ کی توجہ اور حوصلہ افزائی کے لئے شکرگزار ہوں۔ ان شاء اللہ کوشش رہے گی کہ جن نکات کی جانب آپ نے توجہ دلائی، مستقبل میں ان کی رعایت رکھوں۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہاں آپ کی مزید توجہ کا طالب ہوں۔ میں نے دوبارہ تقطیع کرکے دیکھی، مگر مسئلہ کا مقام پہچان نہیں پارہا۔ ذیل میں اپنی تقطیع لکھ رہا ہوں، افاعیل کو منفصل اس لئے لکھا ہے کہ اگر میں نے کسی مقام پر اسقاطِ حروف میں غلطی کی ہو تو آسانی سے پکڑ میں آجائے۔

taqti.jpg

آپ" انہیں" کا تلفظ ٹھیک نہیں کررہے۔ یہ ہندی لفظ ہے اور یہ دراصل "انھیں" ہے یعنی اس میں مرکب حرف "نھ" ہے ۔ لیکن عام چلن اور رواج کے تحت اس کا املا" انہیں" کیا جاتا ہے اور اسے درست املا مان لیا گیا ہے۔ اس کا وزن فعو ہے ، فعلن نہیں ہے ۔
 
Top