عزیز حامد مدنی غزل : بوئے گل محوِ سفر خود ہے ہوا کے مانند - عزیز حامد مدنی

غزل
بوئے گل محوِ سفر خود ہے ہوا کے مانند
کون اس راز کو سمجھے گا صبا کے مانند

کوئی افسوں نہیں اس نیم نگاہی سے سوا
کوئی جادو نہیں اس زلفِ دُوتا کے مانند

میں ترے شہر کے گردُوں سے الجھتا ہی رہا
ایک رَم خوردہ ستارے کی ضیا کے مانند

اس نے کچھ پچھلے پہر کوشِ محبت میں کہا
نرم شبنم کی طرح ، شوخ صبا کے مانند

وادیِ شوق میں چب چاپ نکل جاتی ہے
جرسِ دُور کی آواز ، ہوا کے مانند

رخِ جاناں پہ ہوا صورتِ یک موجِ خیال
ہر تغیر کا اثر آب و ہوا کے مانند

چارہ گر عاجز و تقریبِ عیادت موقوف
درد نے کام کیا آج دوا کے مانند

کیا کہیں وہم پرستی میں یہ رنگ آتا ہے
بت کدے میں بھی کوئی ہو گا خدا کے مانند

دیکھ اس راہ میں اے زلفِ گرہ گیر نگار
اور بھی شوخ ہوائیں ہیں صبا کے مانند

یک دگر ہو کے بھی اسلوب کی خاطر آخر
کوئی مُتا ہے حنائے کفِ پا کے مانند

حانۂ دل میں در آئی ہے تری یاد اے دوست
ایک تلاطم کی طرح ، سیلِ بلا کے مانند
عزیز حامد مدنی
1957ء
 
Top