غزل بغرض اصلاح

اتنا ہی نہیں بس پسِ زندان پڑے ہیں
مقتل میں بھی تو صاحبِ وجدان پڑے ہیں

کیا دل کے نہاں گوشوں میں اب ڈھونڈ رہا ہے
تُو بات مری مان یہ ویران پڑے ہیں

رجعت کے مرے دیس میں مارے ہوئے انساں
افکار نہ وجدان یہ بے جان پڑے ہیں

پھر ماپ رہا ہے تُو مری فکر کی وسعت
انبار دلائل کے، مری مان، پڑے ہیں

اے خانہ نشینو تمھیں کس بات کا ڈر ہے
اب شہر کے ایوان بھی سنسان پڑے ہیں

گل تازہ سیاست کے چمن میں نہیں کھلتے
مالی سے یہ محروم گلستان پڑے ہیں
 
سب سر پہ لیے کفر کا بہتان پڑے ہیں
زنداں میں کئی صاحبِ وجدان پڑے ہیں

اے خانہ نشینو تمھیں کس بات کا ڈر ہے
اب شہر کے ایوان بھی سنسان پڑے ہیں

رجعت کے مرے دیس میں مارے ہوئے انساں
افکار نہ وجدان یہ بے جان پڑے ہیں

پھر ماپ رہا ہے تُو مری فکر کی وسعت
انبار دلائل کے، مری مان، پڑے ہیں

گل تازہ سیاست کے چمن میں نہیں کھلتے
محروم یہ مالی سے گلستان پڑے ہیں

سرفراز احمد سحؔر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ٹیگ نہیں کیا تھا اس لئے اسے مس کر گیا!
سب سر پہ لیے کفر کا بہتان پڑے ہیں
زنداں میں کئی صاحبِ وجدان پڑے ہیں
... درست لگ رہا ہے

اے خانہ نشینو تمھیں کس بات کا ڈر ہے
اب شہر کے ایوان بھی سنسان پڑے ہیں
... ٹھیک

رجعت کے مرے دیس میں مارے ہوئے انساں
افکار نہ وجدان یہ بے جان پڑے ہیں
... رجعت اور مارے ہوئے میں بہت فاصلہ ہو گیا، پھر رجعت کی معنویت بھی سمجھ میں نہیں آئی
دوسرے مصرعے میں بھی عجز بیان ہے

پھر ماپ رہا ہے تُو مری فکر کی وسعت
انبار دلائل کے، مری مان، پڑے ہیں
.. دو لخت لگتا ہے

گل تازہ سیاست کے چمن میں نہیں کھلتے
محروم یہ مالی سے گلستان پڑے ہیں
.. بہتر ہو سکتا ہے، پہلا مصرع بھی۔ دوسرا یوں بہتر ہے
مالی سے یہ محروم گلستان...
 
Top