غزل بر ائے اصلاح

انس معین

محفلین
غزل برائے اصلاح
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
فلسفی
ہر ایک یاد پر ہیں جو جالے لگے ہوئے
اس دل کو بعد تیرے تھے تالے لگے ہوئے
-----------------------------------------
روحیں ہیں دفن ان کی سمندر کے درمیاں
جن کے بدن ہیں لگتے کنارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
طوفان زندگی کے ہیں اور یاد ہے تری
تنکے کے ہم ہیں یارا سہارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
جلوہ دکھا کے کس نے ہیں پردے گرا دیے
ہیں کس کی گفتگو میں نظارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
احمد ؔبہار تھی وہ بس اتنا ہی یاد ہے
عرصہ گزر گیا ترے گلے لگے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
ردیف قوافی متعین نہیں
تین اشعار میں کنارے سہارے قوافی ہیں اور لگے ہوئے ردیف، لیکن مطلع سے جالے، تالے، چھالے قوافی ہو گئے ہیں
مقطع میں گلے کا قافیہ مصرع کو وزن سے خارج کر رہا ہے، ل پر تشدید کے ساتھ آ سکتا ہے جو کوئی لفظ نہیں
 

انس معین

محفلین
الف عین
سر دوبارہ درخواست ہے

ہم خود کو آئینے میں تمہارے لگے ہوئے
عرصہ گزر گیا ہے پیارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
روحیں ہیں دفن ان کی سمندر کے درمیاں
جن کے بدن ہیں لگتے کنارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
طوفان زندگی کے ہیں اور یاد ہے تری
تنکے کے ہم ہیں یارا سہارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
جلوہ دکھا کے کس نے ہیں پردے گرا دیے
ہیں کس کی گفتگو میں نظارے لگے ہوئے
-----------------------------------------
محفل میں بے وفائی کا مضمون چھڑ گیا
کب سے ہیں سب تمہارے ہی بارے لگے ہوئے​
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو پہلی غزل سے بھی زیادہ مخدوش ہو گئی!
ہم خود کو آئینے میں تمہارے لگے ہوئے
عرصہ گزر گیا ہے پیارے لگے ہوئے
----------------------------------------- پہلا مصرع بات نا مکمل ہے، آئینے میں لگنا کوئی محاورہ نہیں، دوسرے میں پیارے کا تلفظ پ ی آ ر ے باندھا گیا ہے جب کہ درست تلفظ بلکہ تقطیع محض پارے ہوتی ہے ۔ مصرع بے معنی بھی ہے

روحیں ہیں دفن ان کی سمندر کے درمیاں
جن کے بدن ہیں لگتے کنارے لگے ہوئے
----------------------------------------- مفہوم سمجھ نہیں سکا، شعر میں تکنیکی غلطی صرف یہ ہے کہ 'لگتے' کی ے کا گرنا اچھا نہیں لگتا، مفہوم جو بھی ہو، یہ مصرع یوں بہتر ہے
لگتے ہیں جن کے جسم کنارے....

طوفان زندگی کے ہیں اور یاد ہے تری
تنکے کے ہم ہیں یارا سہارے لگے ہوئے
----------------------------------------- یارا غیر متعلق بھرتی کا لفظ ہے، ہم کہاں لگے ہوئے ہیں، یہ تو پتہ ہی نہیں چلتا!

جلوہ دکھا کے کس نے ہیں پردے گرا دیے
ہیں کس کی گفتگو میں نظارے لگے ہوئے
----------------------------------------- نظارے لگنا۔ محاورہ نہیں یہ بھی

محفل میں بے وفائی کا مضمون چھڑ گیا
کب سے ہیں سب تمہارے ہی بارے لگے ہوئے
... یہ بھی محاورے کے خلاف ہے
محض کنارے اور سہارے میں قافیہ اور محاورے کا درست استعمال ہے
 
Top