غزل بر ائے اصلاح #4

انس معین

محفلین
سر اصلاح کی درخواست
الف عین
عظیم فلسفی


تھا کتنا جھجک کر بنایا تعلق
کیوں جھجکے نہیں ہیں جدا ہونے والے
-------------------------------
ہیں کھل کھل کے ہنستے بہت آج کل وہ
جدائی میں تیری بہت رونے والے
------------------------------
یہ سالوں سے لمحے بدل جاتے پل میں
جو کچھ پل کو رکتے خفا ہونے والے
------------------------------
بدن سے جو تیرے لپٹ کر تھے آئے
وہ کپڑے پڑے ہیں ابھی دھونے والے
------------------------------
وہ ریشم سی زلفیں گواہی ہیں اس پر
کہ سب سانپ ہوتے نہیں ڈسنے والے
 

عظیم

محفلین
تھا کتنا جھجک کر بنایا تعلق
کیوں جھجکے نہیں ہیں جدا ہونے والے
-------------------------------دوسرا مصرع، تو ججھکے نہیں کیوں جدا ہونے والے۔ بہتر رہے گا

ہیں کھل کھل کے ہنستے بہت آج کل وہ
جدائی میں تیری بہت رونے والے
------------------------------محاورہ شاید کھل کھلا کر ہنسنا ہے۔ کھل کھل کے ہنسنا بھی کہیں سنا سنا لگ رہا ہے۔ چل جائے گا میرا خیال ہے
مطلب کچھ واضح نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ شعر نہیں بن پایا۔ ہنسنے کی کوئی وجہ بیان ہوتی تو بات بننی تھی

یہ سالوں سے لمحے بدل جاتے پل میں
جو کچھ پل کو رکتے خفا ہونے والے
------------------------------یہ صدیوں سے لمحے.... کر لیں

بدن سے جو تیرے لپٹ کر تھے آئے
وہ کپڑے پڑے ہیں ابھی دھونے والے
------------------------------پسند نہیں آیا

وہ ریشم سی زلفیں گواہی ہیں اس پر
کہ سب سانپ ہوتے نہیں ڈسنے والے
۔۔۔قافیہ غلط ہو گیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ دو غزلیں کہیں۔ ایک جدا، خفا قوافی اور 'ہونے والے' ردیف کے ساتھ
اور دوسری رونے، ہونے قوافی اور 'والے' ردیف کے ساتھ
پہلا اور تیسرا شعر جدا اور خفا قوافی کے ساتھ ردیف 'ہونے والے'
دوسرا اور چوتھا شعر (مضمون بدل کر) رونے، دھونے قوافی اور 'والے' ردیف کے ساتھ
پانچویں شعر کا قافیہ ڈسنے ہنسنے بسنے وغیرہ کے ساتھ درست ہو گا
 

فلسفی

محفلین
تھا کتنا جھجک کر بنایا تعلق
کیوں جھجکے نہیں ہیں جدا ہونے والے
میرے خیال میں روانی یوں بہتر ہے
تعلق بنایا تھا کتنا جھجک کر
جھجھکتے نہیں کیوں جدا ہونے والے

لیکن یہ صورت بھی دیکھیے

تامل، تعلق سے پہلے تھا لیکن
ذرا بھی نہ جھجکے جدا ہونے والے
 

الف عین

لائبریرین
میں نے عظیم کے مشورے کو دیکھنے سے پہلے یوں سوچا تھا
نہ جھجکے ہیں پھر / مگر کیوں.....
 

انس معین

محفلین
تھا کتنا جھجک کر بنایا تعلق
کیوں جھجکے نہیں ہیں جدا ہونے والے
-------------------------------دوسرا مصرع، تو ججھکے نہیں کیوں جدا ہونے والے۔ بہتر رہے گا

ہیں کھل کھل کے ہنستے بہت آج کل وہ
جدائی میں تیری بہت رونے والے
------------------------------محاورہ شاید کھل کھلا کر ہنسنا ہے۔ کھل کھل کے ہنسنا بھی کہیں سنا سنا لگ رہا ہے۔ چل جائے گا میرا خیال ہے
مطلب کچھ واضح نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ شعر نہیں بن پایا۔ ہنسنے کی کوئی وجہ بیان ہوتی تو بات بننی تھی

یہ سالوں سے لمحے بدل جاتے پل میں
جو کچھ پل کو رکتے خفا ہونے والے
------------------------------یہ صدیوں سے لمحے.... کر لیں

بدن سے جو تیرے لپٹ کر تھے آئے
وہ کپڑے پڑے ہیں ابھی دھونے والے
------------------------------پسند نہیں آیا

وہ ریشم سی زلفیں گواہی ہیں اس پر
کہ سب سانپ ہوتے نہیں ڈسنے والے
۔۔۔قافیہ غلط ہو گیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ دو غزلیں کہیں۔ ایک جدا، خفا قوافی اور 'ہونے والے' ردیف کے ساتھ
اور دوسری رونے، ہونے قوافی اور 'والے' ردیف کے ساتھ
پہلا اور تیسرا شعر جدا اور خفا قوافی کے ساتھ ردیف 'ہونے والے'
دوسرا اور چوتھا شعر (مضمون بدل کر) رونے، دھونے قوافی اور 'والے' ردیف کے ساتھ
پانچویں شعر کا قافیہ ڈسنے ہنسنے بسنے وغیرہ کے ساتھ درست ہو گا

جی سر بہتر کر کے دوبارہ بھیجتا ہوں
 

انس معین

محفلین
میرے خیال میں روانی یوں بہتر ہے
تعلق بنایا تھا کتنا جھجک کر
جھجھکتے نہیں کیوں جدا ہونے والے

لیکن یہ صورت بھی دیکھیے

تامل، تعلق سے پہلے تھا لیکن
ذرا بھی نہ جھجکے جدا ہونے والے
کیا خوبصورت کر دیا آپ نے ۔۔۔ ۔ ۔
یہ سامنے رکھوں گا غزل مکمل کرتے ہوئے
 
Top