اپنی یادوں کو یہیں آگ لگاتے جاتے
یہ چڑھاوا شبِ فرقت پہ چڑھاتے جاتے

وہ جو آئے تھے بچانے مجھے خود ڈوب گئے
کاش کشتی کو کنارے سے لگاتے جاتے!

اشک آنکھوں میں چھپانے نہیں آتے مجھ کو
ورنہ خوش ہے کے میں ملتا تمھیں آتے جاتے

فاتحہ کے نہیں قائل تو کوئی بات نہیں
اک دیا ہی مرے مدفن پہ جلاتے جاتے

اپنے رستے میں انا کی ہے رکاوٹ صاحب!
ورنہ پلکوں کو تری راہ میں بچھاتے جاتے

شبِ ظلمت کی سیاہی کا مداوا ہوتا
گر سبھی لوگ نئی شمع جلاتے جاتے
 

محمدظہیر

محفلین
یہ غزل آپ نے لکھی ہے اور عنوان بھی آپ نے دیا ہے اور آپ کی عمر ابھی اٹھارہ سال ہے تو یقین کیجیے اگلے دس سال میں بہترین شاعر بنو گے مسلسل ایسی کوشش کرتے رہوگے تو
 
یہ غزل آپ نے لکھی ہے اور عنوان بھی آپ نے دیا ہے اور آپ کی عمر ابھی اٹھارہ سال ہے تو یقین کیجیے اگلے دس سال میں بہترین شاعر بنو گے مسلسل ایسی کوشش کرتے رہوگے تو

بہت نوازش جناب--- سلامت رہیں!
 
Top