غزل برائے توجہ و اصلاح

عین عین

لائبریرین
کوئی دیکھے تو حالت بام و دَر کی
یہ صورت کیا ہوئی ہے میرے گھر کی

نشاں، منزل کا مجھ کو مل گیا ہے
نہیں جاتی مگر عادت سفر کی

ہمارا مشغلہ اتنا ہی تھا بس
خبر دینا اُدھر جا کے اِدھر کی

ذرا سی دیر میں نظروں سے اوجھل!
تمھیں درکار تھی مہلت نظر کی

جسے مقتل کی عادت ہو گئی ہے
اُسے کیا فکر ہو گی اپنے سر کی

خیال و خواب جیسی زندگانی
خیال و خواب میں ہم نے بسر کی

عارف عزیز
 

عین عین

لائبریرین
فاتح بھائی کچھ اونچ نیچ غلطی شلطی تو نکال دیتے۔ وارث بھائی اور بابا جانی کا بھی انتظار ہے۔ اشعار جان دار نہیں ہیں ۔ میں مزید بہتر بنانے کی کوشش کروں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے عارف صاحب۔

دوسرا، پانچواں اور چھٹا شعر خوبصورت اور خوب تر ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی کم از کم میری نظر میں ضرورت نہیں ہے۔

مطلع کو مزید جاندار بنایا جا سکتا ہے، تیسرے شعر میں 'مشغلہ' کے لفظ کو کس بہتر سے تبدیل اگر کر سکیں تو شعر مزید خوبصورت ہو جائے گا۔

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے عارف صاحب، اس کو اصلاح سخن میں پوسٹ کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی، ہاں البتہ ’مشورۂ سخن‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے وارث نے درست مشورے دئے ہیں۔ مجھے ایک لفظ ضرور کھٹکا، جب ’جا کر‘ بھی بحر میں آ جاتا ہے تو پھر ’جا کے‘ کا استعمال؟
خبر دینا اُدھر جا کے اِدھر کی
 

عین عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے عارف صاحب، اس کو اصلاح سخن میں پوسٹ کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی، ہاں البتہ ’مشورۂ سخن‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے وارث نے درست مشورے دئے ہیں۔ مجھے ایک لفظ ضرور کھٹکا، جب ’جا کر‘ بھی بحر میں آ جاتا ہے تو پھر ’جا کے‘ کا استعمال؟
خبر دینا اُدھر جا کے اِدھر کی

بہت شکریہ۔ اِدھر اور کر میں تکرار سی محسوس کی تھی اس لیے جا کے کر دیا۔
 
Top