غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
نہ رستہ اور نہ منزل جانتا ہوں
سرِ راہِ محبت چل رہا ہوں

یہ راہِ عشق ہے یا کوئی صحرا
کہ ہر خواہش کو تشنہ دیکھتا ہوں

تری یادوں کا موسم بھاگیا ہے
میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں

سمجھتا کیوں نہیں تو مجھ کو آخر
بالآخر میں ترا ہی آئینہ ہوں

تری طرح نہیں مجرم وفا کا
یہ دعویٰ بھی نہیں کہ پارسا ہوں

گماں ہوتا ہے ویرانے کا مجھ کو
میں اپنے دل میں جب بھی جھانکتا ہوں

تقابل کیا بھلا ہو ان سے میرا
وہ خنجر ہیں تو میں بسمل نما ہوں

ندامت سے نہیں اٹھتی نگاہیں
میں جب اعمال اپنے دیکھتا ہوں

انھے فائق میں کیسے بھول جاتا
میں کب مانند ان کے بے وفا ہوں
 
آخری تدوین:

علی امان

محفلین
پیارے دوست اچھی کوشش ہے۔ آپ نے عنوان میں برائے اصلاح لکھا ہے اس لئے کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
سرسری طور پر دیکھنے سے کچھ اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوئی: شعر:
تری طرح نہیں مجرم وفا کا​
یہ دعویٰ بھی نہیں کہ پارسا ہوں
میں لفظ طرح کو غلط باندھاہے۔ اس کا تلفظ دو طرح ہوسکتا ہے: طَرحَ اور طَرَح اسے وتد مفروق اور وتد مجموع کہتے ہیں۔ آپ نے وتد مفروق استعمال کیا ہے لیکن موزوں نہیں ہو سکا، ایک ساکن کی جگہ خالی رہ گئی ہے۔ بحر میں یہ مقابل ہے مفاعیلن کے عیلن کا۔ ن خالی رہ گیا ہے۔ آپ نے طرحا باندھا ہے۔
اسی طرح اس کے دوسرے مصرع میں لفظ "کہ" کو غلط باندھا ہے۔ یہ صرف کِ استعمال ہوگا۔​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے چاروں اشعار یا تو واضح نہیں یا دو لختی کا شکار ہیں۔ باقی میں علی امان سے متفق ہوں۔ لیکن اعمال یا کرتوت میں بہتر لفظ تو اعمال ہی لگ رہا ہے مجھے۔
 
Top