غزل برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
ایک غزل نما تک بندی اساتذہ کی خدمت میں اصلاح کے لئے پیش کررہا ہوں! توجہ و مشورے درکار ہیں ! محترم سر الف عین ، راحیل فاروق ،
ظہیراحمدظہیر صاحبان اور تمام اساتذہ کی توجہ درکار ہے !

تمام عمر وہ ہم سے گھلےملے ہی رہے
ہمی سے تھوڑے سے شکوے انہیں بھلے ہی رہے
اجڑ گئے ہیں چمن، یوں تو یاد ماضی کے
الگ سی بات کہ کچھ زخم ِ دل کھلے ِ ہی رہے
عجب ہی حوصلے دیکھے گئے چراغوں میں
ہوا چلی ہی نہیں پھر بھی وہ جلے ہی رہے ،
نہ آئے وہ، نہ ہی قاصد، نہ ہی صبا آئی
تمام شب تو مرے بام و در کھلے ہی رہے
خدا ہی خیر کرے جذبہ انا الحق کا
کہ ہم تھے بسمل مقتل ،انہیں گلے ہی رہے
وہ آئے جس گھڑی محفل میں چاندنی سی ہوئی
پھر اس کے بعد اندھیروں کے سلسلے ہی رہے
ہمیں دیا گیا رندی پہ کفر کا رتبہ
جناب شیخ کے دامن مگر دھلے ہی رہے
ملا نہ قیس نہ لیلی نہ منزل ِ مقصود!
مرے تو حصے میں کاشف یہ آبلے ہی رہے

 
ایک صلاح تو یہی ہوسکتی ہے کہ مِلے، سِلے، گِلے، کھِلے والے مصرعوں کو رکھ لیجے، باقیوں کو نکال باہر کیجیے۔ اب ان خالی جگہوں پر نئے مصرعے گھڑیئے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
ایک صلاح تو یہی ہوسکتی ہے کہ مِلے، سِلے، گِلے، کھِلے والے مصرعوں کو رکھ لیجے، باقیوں کو نکال باہر کیجیے۔ اب ان خالی جگہوں پر نئے مصرعے گھڑیئے۔

بہت شکریہ سر محمد خلیل الرحمٰن صاحب !
سلسلے ، اور آبلے کا کیا مسئله ہے ؟ سلسلے تو شاید سِلے کی طرح چل سکے لیکن آبلے کیا درست ہے؟ یا اسے بھی خارج کرنا پڑیگا ؟
 
Top