غزل برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
ایک اور تک بندی اصلاح کے لئے حاضر ہے! محترم سر الف عین اور ابن رضا بھائی سے اصلاح و مشورے کی درخواست ہے

خار ِ رہ کے واسطے ہم آبلہ ہوجائیں گے
راہی ِ منزل کی خاطر نقش ِ پا ہو جائیں گے
راہ ِ اردو میں جلا کر ہم چراغ ِ خون ِ دل
رہروِ اردو کی خاطر اک دیا ہوجائیں گے
اب نہیں مقدور یوں ہم کو بیان ِ حال ِ دل
سل کے اپنے لب سراپا مدعی ہوجائیں گے
پیش کرکے ہم وفا کی راہ مین سوغات ِ جاں
کاروان ِ شوق کا اک راستہ ہوجائیں گے
کام پڑنے پر وہ مجھ سے اس طرح گویا هوئے
ایسا لگتا تھا وہ اب کے آشنا ہوجائیں گے
بن گیا جب کام ان کا، بے رخی سے چلدئیے
ہم تو سمجھے تھے وہ شاید باوفا ہوجائیں گے
کج کلاہ بھی، حکمراں بھی اولیا بھی چل بسے
ہم بھی آخر خاک ہوکر زیرِ پا ہوجائیں گے
قاتل ِ انسانیت ہو حکمراں جس قوم کا
سارے قاتل دیکھنا پھر رہنما ہوجائیں گے
ہم نے خضر ِ راہ سمجھا، سو کیا تھا رہنما
کیا پتہ تھا اتنے ظالم ، ناخدا ہوجائیں گے
اپنے ظاہر کو بناکر اب کے کاشف خوشنما
مثل ِ شیخ ِ کعبہ ہم بھی پارسا ہوجائیں گے!​
 

الف عین

لائبریرین
بظاہر تو کوئی خامی نہیں۔ بقول محمد یعقوب آسی اس غزل کے ساتھ کچھ وقت گزارو تو بہتری کے لئے خود ہی کچھ تبدیلیاں محسوس ہو جائیں گی۔کچھ اشعار بھرتی کے ہیں
مدعی اور مدعا الگ الگ الفاظ ہیں، یہاں مدعا کا ہی محل ہے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
بظاہر تو کوئی خامی نہیں۔ بقول محمد یعقوب آسی اس غزل کے ساتھ کچھ وقت گزارو تو بہتری کے لئے خود ہی کچھ تبدیلیاں محسوس ہو جائیں گی۔کچھ اشعار بھرتی کے ہیں
مدعی اور مدعا الگ الگ الفاظ ہیں، یہاں مدعا کا ہی محل ہے۔

بہت شکریہ محترم! جزاکم اللہ خیرا
مدعا ہی لکھنا تھا ، پر یہ معلوم نہیں تھا کہ الف کے ساتھ لکھتے ہیں، بہت شکریہ رہنمائی کیلئے اس غزل کے ساتھ میں نے کافی وقت گذارا ہے! اس لئے اپنے طور پر اسے مزید بہتر بنانے سے قاصر ہوں ! آپ نشاندہی فرمادیں تو مہربانی ہوگی!
 
بہت شکریہ محترم! جزاکم اللہ خیرا
مدعا ہی لکھنا تھا ، پر یہ معلوم نہیں تھا کہ الف کے ساتھ لکھتے ہیں، بہت شکریہ رہنمائی کیلئے اس غزل کے ساتھ میں نے کافی وقت گذارا ہے! اس لئے اپنے طور پر اسے مزید بہتر بنانے سے قاصر ہوں ! آپ نشاندہی فرمادیں تو مہربانی ہوگی!
خواجہ حالی کا نسخہ ہے کہ مضمون نیچرل ، بندش چست اور الفاظ کی مناسبتیں زیادہ ہونے سے شعر اچھا ہو جاتا ہے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین

کاشف اختر

لائبریرین
محترم سر الف عین صاحب ! آپ کے حکم کے مطابق اس غزل کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد قدرے ترمیم کے ساتھ پیش کررہا ہوں! توجہ درکار ہے
راحیل فاروق ظہیراحمدظہیر صاحبان !


خار ِ رہ کے واسطے ہم آبلہ ہوجائیں گے
راہی ِ منزل کی خاطر نقش ِ پا ہو جائیں گے
راہ ِ اردو میں جلا کر ہم چراغ ِ خون ِ دل
رہروِ اردو کی خاطر اک دیا ہوجائیں گے
آجکل انصاف کا چرچا ہے سارے شہر میں
پھر سے قاتل اور مجرم رہنما ہوجائیں گے
کام پڑنے پر وہ مجھ سے اس طرح گویا هوئے
ایسا لگتا تھا وہ اب کے آشنا ہوجائیں گے
بن گیا جب کام ان کا، بے رخی سے چلدئیے
ہم تو سمجھے تھے وہ شاید باوفا ہوجائیں گے
کھل گیا رندوں پہ بھی اب پارسائی کا فسوں
خوشنما وہ کرکے ظاہر پارسا ہوجائیں گے
کج کلاہ بھی، حکمراں بھی اولیا بھی چل بسے
ہم بھی آخر خاک ہوکر زیرِ پا ہوجائیں گے
کل تلک جو پھر رہے ووٹ لینے دربدر
بس الکشن جیتنے پر دیوتا ہوجائیں گے
اب نہیں مقدورہے کاشف بیان ِحال کا
سل کے اپنے لب ہمیں خود مدعا ہوجائیں گے


 

الف عین

لائبریرین
تفصیل سے اب
خار ِ رہ کے واسطے ہم آبلہ ہوجائیں گے
راہی ِ منزل کی خاطر نقش ِ پا ہو جائیں گے
۔۔ درست

راہ ِ اردو میں جلا کر ہم چراغ ِ خون ِ دل
رہروِ اردو کی خاطر اک دیا ہوجائیں گے
÷÷چراغ جلا کر دیا ہو جائیں گے؟ اولیٰ مصرع میں محض خون دل کہو تو بہتر ہے۔

آجکل انصاف کا چرچا ہے سارے شہر میں
پھر سے قاتل اور مجرم رہنما ہوجائیں گے
÷÷بات سمجھ میں نہیں آئی، واضح کرو۔

کام پڑنے پر وہ مجھ سے اس طرح گویا هوئے
ایسا لگتا تھا وہ اب کے آشنا ہوجائیں گے
بن گیا جب کام ان کا، بے رخی سے چلدئیے
ہم تو سمجھے تھے وہ شاید باوفا ہوجائیں گے
÷÷ ان دو اشعار کے اوپر قطعے کا ’ق‘ لگا دو۔

کھل گیا رندوں پہ بھی اب پارسائی کا فسوں
خوشنما وہ کرکے ظاہر پارسا ہوجائیں گے
÷÷دوسرا مصرع واضح نہیں

کج کلاہ بھی، حکمراں بھی اولیا بھی چل بسے
ہم بھی آخر خاک ہوکر زیرِ پا ہوجائیں گے
÷÷کج کلہ بحر میں آتا ہے، اسے ایسے ہی لکھنا چاہئے، کلاہ نہیں۔ لیکن یہ لفظ اسم نہیں حکمران اور اولیا کی طرح۔ بہر حال چل سکتا ہے۔

کل تلک جو پھر رہے ووٹ لینے دربدر
بس الکشن جیتنے پر دیوتا ہوجائیں گے
÷÷شاید ٹائپو ہے کہ پہلے مصرعے میں ’تھے‘ چھوٹ گیا ہے۔

اب نہیں مقدورہے کاشف بیان ِحال کا
سل کے اپنے لب ہمیں خود مدعا ہوجائیں گے
÷÷روانی کی کمی ہے۔ یوں کہو تو
اب نہیں مقدور کچھ۔۔۔
سل کے لب؟ درست محاورہ ہو گا ’سی کے اپنے لب‘
 

الف عین

لائبریرین
تفصیل سے اب
خار ِ رہ کے واسطے ہم آبلہ ہوجائیں گے
راہی ِ منزل کی خاطر نقش ِ پا ہو جائیں گے
۔۔ درست

راہ ِ اردو میں جلا کر ہم چراغ ِ خون ِ دل
رہروِ اردو کی خاطر اک دیا ہوجائیں گے
÷÷چراغ جلا کر دیا ہو جائیں گے؟ اولیٰ مصرع میں محض خون دل کہو تو بہتر ہے۔

آجکل انصاف کا چرچا ہے سارے شہر میں
پھر سے قاتل اور مجرم رہنما ہوجائیں گے
÷÷بات سمجھ میں نہیں آئی، واضح کرو۔

کام پڑنے پر وہ مجھ سے اس طرح گویا هوئے
ایسا لگتا تھا وہ اب کے آشنا ہوجائیں گے
بن گیا جب کام ان کا، بے رخی سے چلدئیے
ہم تو سمجھے تھے وہ شاید باوفا ہوجائیں گے
÷÷ ان دو اشعار کے اوپر قطعے کا ’ق‘ لگا دو۔

کھل گیا رندوں پہ بھی اب پارسائی کا فسوں
خوشنما وہ کرکے ظاہر پارسا ہوجائیں گے
÷÷دوسرا مصرع واضح نہیں

کج کلاہ بھی، حکمراں بھی اولیا بھی چل بسے
ہم بھی آخر خاک ہوکر زیرِ پا ہوجائیں گے
÷÷کج کلہ بحر میں آتا ہے، اسے ایسے ہی لکھنا چاہئے، کلاہ نہیں۔ لیکن یہ لفظ اسم نہیں حکمران اور اولیا کی طرح۔ بہر حال چل سکتا ہے۔

کل تلک جو پھر رہے ووٹ لینے دربدر
بس الکشن جیتنے پر دیوتا ہوجائیں گے
÷÷شاید ٹائپو ہے کہ پہلے مصرعے میں ’تھے‘ چھوٹ گیا ہے۔

اب نہیں مقدورہے کاشف بیان ِحال کا
سل کے اپنے لب ہمیں خود مدعا ہوجائیں گے
÷÷روانی کی کمی ہے۔ یوں کہو تو
اب نہیں مقدور کچھ۔۔۔
سل کے لب؟ درست محاورہ ہو گا ’سی کے اپنے لب‘
 

کاشف اختر

لائبریرین
بہت شکریہ سر ! جزاکم اللہ خیرا! بخدا آپ کے تبصرے دیکھ کر دل فرط مسرت سے جھوم اٹھا ، اللہ آپ کو خوش رکھے! آمین
اصلاح کے بعد دوبارہ حاضر کرتا ہوں ............ سلامت رہیں ! شکریہ
 

کاشف اختر

لائبریرین
تبدیلی کے بعد دوبارہ حاضر ہے ! سر الف عین صاحب کی توجہ کا طالب و محتاج ہوں !

خار ِ رہ کے واسطے ہم آبلہ ہوجائیں گے
راہی ِ منزل کی خاطر نقش ِ پا ہو جائیں گے
پیش کرکے ہم وفا کی راہ میں سوغات جاں
کاروان شوق کا اک راستہ ہوجائیں گے
ق
کام پڑنے پر وہ مجھ سے اس طرح گویا هوئے
ایسا لگتا تھا وہ اب کے آشنا ہوجائیں گے
بن گیا جب کام ان کا، بے رخی سے چلدئیے
ہم تو سمجھے تھے وہ شاید باوفا ہوجائیں گے
آجکل پھر عدل کا چرچا ہے سارے شہر میں
سارے قاتل شہر کے پھر سربراہ ہوجائیں گے
کج کلہ بھی، حکمراں بھی اولیا بھی چل بسے
ہم بھی آخر خاک ہوکر زیرِ پا ہوجائیں گے
کل تلک جو پھر رہے تھے ووٹ لینے دربدر
بس الکشن جیتنے پر دیوتا ہوجائیں گے
اپنے ظاہر کو بناکر ہر طرح سے خوشنما
مثل ِ شیخ و برہمن ہم پارسا ہوجائیں گے
اب نہیں مقدور کچھ بھی ہے بیان ِحال کا
سی کے اپنے لب ہمیں خود مدعا ہوجائیں گے
راہ ِ اردو میں جلاکر ہم بھی کاشف خون ِ دل
رہروِ اردو کی خاطر اک دیا ہوجائیں گے
 
Top