غزل برائے اصلاح

اس کارگہ میں نقشِ وفا دیکھتے رہے
گردِ فنا میں آبِ بقا دیکھتے رہے

قطرہ ہر ایک خون کا دل سے نکال کر
اس میں فقط تجھی کو بسا دیکھتے رہے

کیوں بت کدے چلے ہیں؟ وجہ یہ ہے شیخ جی
مسجد میں بت ہیں یاں سے بڑا دیکھتے رہے

روزِ ازل کو جرم تھا کیا ہم نے کر دیا
جس کی ہیں ساری عمر سزا دیکھتے رہے

بحرِ نصیبِ خود میں عجب بے کسی کے ساتھ
موجِ بلا کو بال کشا دیکھتے رہے

خوں بار آنکھ والے جہانِ خراب میں
ریحان کچھ سبھی سے سوا دیکھتے رہے
 
آخری تدوین:
Top