غزل برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم استاذہ کرام الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن،
محمد احسن سمیع: راحل
سید عاطف علی

آداب

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے_____


میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی


کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی


ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی


دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی


یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی
 
متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
یہ اس غزل کی بحر ہے، مطلع ہی اس پر فٹ نہیں بیٹھا ،باقی کو دیکھا ہی نہیں
 

الف عین

لائبریرین
جن مصرعوں میں بحر درست نہیں، ان کو نشان زد کر رہا ہوں

میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
**میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی


کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی
..اس کے علاوہ مدعا مذکر ہے، 'اسیر کا' ہونا تھا جو زمین میں نہیں

ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
**کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی


دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
**وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی


یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
جن مصرعوں میں بحر درست نہیں، ان کو نشان زد کر رہا ہوں

میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
**میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی


کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی
..اس کے علاوہ مدعا مذکر ہے، 'اسیر کا' ہونا تھا جو زمین میں نہیں

ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
**کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی


دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
**وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی


یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی

متشکرم
میں خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم استاذہ کرام الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن،
محمد احسن سمیع: راحل
سید عاطف علی

آداب

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے_____


میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی


کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی


ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی


دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی


یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی
زمین اچھی ہے، کس شاعر کی چنی ہے؟
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
زمین اچھی ہے، کس شاعر کی چنی ہے؟

شکریہ
کسی شاعر کی چنی تو نہیں ۔۔۔۔۔مگر جب غزل مکمل کرنے کے بعد بحر چیک کی تو میرے پسندیدہ شاعر (علامہ اقبال ) کی پسندیدہ نظم (کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباس مجاز میں) کی زمںن نکلی۔۔۔۔اسے اتفاق تو نہیں ہاں حسن اتفاق کہا کا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ سے گزارش ہے کہ براہ کرم نظرِ ثانی کی زحمت گوارہ کریں_______





میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ دہائیاں ہوں اسیر کی
میں ہوں حالتِ دلِ مضطرب میں نوا ہوں خستہ فقیر کی


کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مری بت پرستوں سے جاں چھڑاؤ یہی آرزو مجھ اسیر کی


ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
کبھی دل کی دھڑکن پہ کان دھر کر سنوں تم صدائیں ضمیر کی



دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی


یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی
 

یاسر علی

محفلین
میں ہوں حالتِ دلِ مضطرب میں نوا ہوں خستہ فقیر کی


مری بت پرستوں سے جاں چھڑاؤ یہی آرزو مجھ اسیر کی


کبھی دل کی دھڑکن پہ کان دھر کر سنوں تم صدائیں ضمیر کی

دلِ
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی

یہ مصرعے بے وزن ہیں۔۔۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
میں ہوں حالتِ دلِ مضطرب میں نوا ہوں خستہ فقیر کی


مری بت پرستوں سے جاں چھڑاؤ یہی آرزو مجھ اسیر کی


کبھی دل کی دھڑکن پہ کان دھر کر سنوں تم صدائیں ضمیر کی

دلِ
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی

یہ مصرعے بے وزن ہیں۔۔۔


یہ تو مُجھے بھی معلوم ہیں سر مگر میں سمجھ نہیں پا رہی کی اس میں کون سے الفاظ غزل کے وزن میں مخل ڈال رہے ہیں۔۔۔۔۔میں کافی دنوں سے غور و خوض کر رہی ہُوں مگر کسی نہج پر نہیں پہنچ پا رہی اساتذہ سے تھوڑی وضاحت چاہتی ہوں۔
 

یاسر علی

محفلین
یہ تو مُجھے بھی معلوم ہیں سر مگر میں سمجھ نہیں پا رہی کی اس میں کون سے الفاظ غزل کے وزن میں مخل ڈال رہے ہیں۔۔۔۔۔میں کافی دنوں سے غور و خوض کر رہی ہُوں مگر کسی نہج پر نہیں پہنچ پا رہی اساتذہ سے تھوڑی وضاحت چاہتی ہوں۔

میں استاد تو نہیں ادنیٰ سے طالبعلمی ہوں۔۔
خستہ ،مجھ اسیر میں "مجھ"،دھڑکن میں کن کی وجہ سے،مجھ مشیر میں پھر"مجھ"۔
 
میں ہوں حالتِ دلِ مضطرب میں نوا ہوں خستہ فقیر کی


مری بت پرستوں سے جاں چھڑاؤ یہی آرزو مجھ اسیر کی


کبھی دل کی دھڑکن پہ کان دھر کر سنوں تم صدائیں ضمیر کی

دلِ
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی

یہ مصرعے بے وزن ہیں۔۔۔

پہلے مصرعے کا وزن درست ہے.
دوسرے والے میں اگر دوسرے رکن کو متفاعلان لیا جائے تو وزن پورا ہوجائے گا، تاہم آخری رکن کے لئے اس کی اجازت کا تو مجھے علم ہے، درمیانی اراکین کے جواز کا مجھے پتہ نہیں، ہوسکتا ہے جائز ہو.
"مجھ" سے وزن ناقص نہیں ہوتا کیونکہ مجھ کی ج کا اسیر کی الف سے وصال ہورہا ہے.

باقی دو مصرعوں کی آپ اپنے حساب سے تقطیع لکھیں، غلطیاں خود ہی واضح ہوجائیں گی.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
پہلے مصرعے کا وزن درست ہے.
دوسرے والے میں اگر دوسرے رکن کو متفاعلان لیا جائے تو وزن پورا ہوجائے گا، تاہم آخری رکن کے لئے اس کی اجازت کا تو مجھے علم ہے، درمیانی اراکین کے جواز کا مجھے پتہ نہیں، ہوسکتا ہے جائز ہو.
"مجھ" سے وزن ناقص نہیں ہوتا کیونکہ مجھ کی ج کا اسیر کی الف سے وصال ہورہا ہے.

باقی دو مصرعوں کی آپ اپنے حساب سے تقطیع لکھیں، غلطیاں خود ہی واضح ہوجائیں گی.
جی سر
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر اب دیکھئے کُچھ بہتری آئی۔۔۔۔۔؟؟


میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ دہائیاں ہوں اسیر کی
میں ہوں حالتِ دلِ مضطرب میں نوا ہوں خستہ فقیر کی


کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
ہے سوال میری بقا کا لاحق تمہی لاج رکھنا اسیر کی

یا

مرے غازیوں امتحاں ہے تیرا تمہی لاج رکھنا اسیر کی



ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
یوں ہی وحشیوں سے نہ بن کے جیتے جو صدائیں سنتے ضمیر کی


دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
جو نہیں ملا اُسے بھول جا یہ ہے نیک رائے مشیر کی


یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی
 
Top