غزل برائے اصلاح

نہ بات مانتا میری نہ بات مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی

یہ بہ رہیں تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی

میں سارا وقت مرا شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی

وہ لےرہا تھا ابھی مجھسے انتقام مگر
میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی تھی

مجھے کیا دلِ دنیا پرست نے برباد
وگرنہ میرے مقدر میں کامرانی تھی

نہ کوئی رختِ سفر تھا نہ ہمسفر کوئی
میانِ کرب سفر میری نوحہ خوانی تھی

اسی لیے میں اتر آیا بے وفائی پر
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی

کہی ہے میں نے جو تنویر شاہکار غزل
سو مجھ کو اہل سخن سے یہ داد پانی تھی

الف عین سر
الف عین
 

الف عین

لائبریرین
نہ بات مانتا میری نہ بات مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی
... تکنیکی طور پر درست لیکن مطلب یوں واضح ہو گا
نہ مانتا تھا مری بات اور نہ مانی تھی

یہ بہ رہیں تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی
... 'رہے تھے'؟
دوسرے مصرعے میں 'اےچشم' کی ے گرنا اچھا نہیں لگتا
یہ تیرے اشکوں کی، اے چشم، رائگانی تھی

میں سارا وقت مرا شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی
.. پہلے مصرع میں 'ہی' ضروری محسوس ہوتا ہے
تمام وقت ہی میں...

وہ لےرہا تھا ابھی مجھسے انتقام مگر
میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی تھی
.. درست، لیکن واضح نہیں

مجھے کیا دلِ دنیا پرست نے برباد
وگرنہ میرے مقدر میں کامرانی تھی
... درست

نہ کوئی رختِ سفر تھا نہ ہمسفر کوئی
میانِ کرب سفر میری نوحہ خوانی تھی

اسی لیے میں اتر آیا بے وفائی پر
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی

کہی ہے میں نے جو تنویر شاہکار غزل
سو مجھ کو اہل سخن سے یہ داد پانی تھی
.. اوپر کے سب اشعار درست لگ رہے ہیں
 
نہ مانتا تھا مری بات اور نہ مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خود کشی کی ٹھانی تھی

یہ بہ رہے تے کسی بے وفا کی فرقت میں
بہ رہے تھے؟
یہاں آپ کیا کہنا چاہ رہے تھے نہیں سمجھ پایا

تمام وقت ہی میں شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کومگر بجھانی تھی

سر الف عین
 
آخری تدوین:
سر الف عین آپکی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کچھ تبدیلیاں کی ہیں

نہ مانتا تھا مری بات اور نہ مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی

یہ بہ رہے تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
یہ تیرے اشکوں کی اے چشم رائگانی تھی

تمام وقت ہی میں شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی

مجھے کیا دلِ دنیا پرست نے برباد
وگرنہ میرے مقدر میں کامرانی تھی

نہ کوئی رختِ سفر تھا نہ ہمسفر کوئی
میانِ کرب سفر میری نوحہ خوانی تھی


یہ مصرع بہتر رہے گا؟
میں بے وفائی کا اظہار کیوں نہیں کرتا
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی

یہ دوسرا مقطع کہا ہے,
وہ جا بسا ہے محبت کے دشت میں تنویر
دیارِ حسن میں کب دل کی قدردانی تھی

سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
'بہی رہے تھے' کی املا ' بہ رہیں تھے' کی گیی تھی، اس شک کو یقین بدلنے کے لیے سوالیہ نشان لگایا تھا مگر ابھی اس شعر پر پھر غور کیا تو لگا کہ دونوں مصرعے 'یہ' سے شروع ہو رہے ہیں، یہ بھی خامی ہے ۔ پہلے مصرع کو 'جو' سے شروع کرنا بہتر ہو گا
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی
پر پرانی گرہ ہی بہتر تھی۔
نیا مقطع بھی چل سکتا ہے لیکن محبت کے دشت کی جگہ بے تعلقی کا دشت لا سکو تو بات بنے
 
سر الف عین

پہلے مصرع میں ,جو,کا استعمال کروں گا تو پھر میرے خیال میں اگلے مصرع میں ان کے استعمال کی ضرورت ہے
آپ دیکھیں

جو بہ رہے تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
ترے ان اشکوں کی اے چشم رائگانی تھی
 
Top