غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
جب عشق کو، فنا کا ملقّب سمجھ لیا
پھر موت کو بھی ہم نے مجرّب سمجھ لیا

ٹپکے جو چار قطرے، ندامت کے، آنکھ سے
گوہر سمجھ لیا انہیں کوکب سمجھ لیا

محشر کی سختیاں جو کی واعظ نے کل بیاں
اس کو بھی ہم نے ہجر کی اک شب سمجھ لیا

تاریخ جن کی ظلم و تشدد سے ہے بھری
ان وحشیوں کو ہم نے مہذّب سمجھ لیا

میں محو گفتگو تھا سنو اپنے آپ سے
"دنیا نے تجھ کو میرا مخاطب سمجھ لیا"

لہری جو زلف ، گال پر اس ماہتاب کی
افعی سمجھ لیا کبھی عقرب سمجھ لیا

تو نے جو بزمِ غیر میں مجھ کو کہا"انیس!!!
میں نے ، جو مدّعا تھا ترا،سب سمجھ لیا

الف عین
 

الف عین

لائبریرین
مجھے ایک شعر میں ہی غلطی نظر آئی
محشر کی سختیاں جو کی واعظ نے کل بیاں
اس کو بھی ہم نے ہجر کی اک شب سمجھ لیا
... مثال کچھ عجیب سی لگی
جمع سختیاں واحد شب؟
سختیاں کے ساتھ جمع کا صیغہ 'کیں' ہونا چاہیے
'جو کی' کے و اور ی کا اسقاط اچھا نہیں
 
Top