غزل برائے اصلاح

انس معین

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔

ہم ان سے محبت کا انکار نہیں کرتے
لیکن وہ تو چھپ کر بھی اقرار نہیں کرتے
------------
یہ ایک نشانی ہے ہم اہلِ محبت کی
غم سہتے ہیں چپ کر کے اظہار نہیں کرتے
------------
نم دیکھ کے آنکھوں کو ہوتے ہو پریشاں کیوں
تم سے تو گلہ کوئی غم خوار نہیں کرتے
------------
قاصد جو ملے ان سےاک بار یہ کہہ دینا
اس طرح کسی کو بھی بیمار نہیں کرتے
------------
بے شک کرو پردہ تم چھوڑو نہ محلے کو
یوں آڑ میں پردے کے دیوار نہیں کرتے
------------
اک ہم نا محرم تھے انصاف یہ کیسا ہے
ہر ایک سے پردہ کیوں سرکار نہیں کرتے
------------
دیوانوں کے حلیے سے رہتا تھا گلہ جن کو
کچھ دن سے تو وہ بھی اب سنگھار نہیں کرتے
------------
سب بیٹھے ہوئے احمدؔ یوں عشق کی راہوں کے
قصے تو سناتے ہیں خبردار نہیں کرتے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہم ان سے محبت کا انکار نہیں کرتے
لیکن وہ تو چھپ کر بھی اقرار نہیں کرتے
------------ دوسرا مصرع اس طرح رواں ہو گا
چھپ کر بھی مگر وہ تو. ....

یہ ایک نشانی ہے ہم اہلِ محبت کی
غم سہتے ہیں چپ کر کے اظہار نہیں کرتے
------------ چپ کر کے؟ درست 'چپ رہ کر' ہو گا اور اس کے بعد کوما ضرور لگائیں

نم دیکھ کے آنکھوں کو ہوتے ہو پریشاں کیوں
تم سے تو گلہ کوئی غم خوار نہیں کرتے
------------ آنکھوں سے کیا شکوے کا اظہار ہوتا ہے؟

قاصد جو ملے ان سےاک بار یہ کہہ دینا
اس طرح کسی کو بھی بیمار نہیں کرتے
------------ قاصد جو ملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اتفاق سے کہیں ملاقات ہو جائے تو قاصد کو یہ کہنا چاہیے۔ اگر قاصد سے کہا جا رہا ہے کہ تم کہہ دینا تو 'ملے' نہیں 'ملو' ہونا چاہیے اور سرسری ذکر سے بہتر یہ اتفاق کی بات بدل دو
بے شک کرو پردہ تم چھوڑو نہ محلے کو
یوں آڑ میں پردے کے دیوار نہیں کرتے
------------دیوار کرنا سمجھ نہیں سکا

اک ہم نا محرم تھے انصاف یہ کیسا ہے
ہر ایک سے پردہ کیوں سرکار نہیں کرتے
------------ پہلا مصرع بحر سے خارج، شاید محرم کا تلفظ محرّم کے مہینے کی طرح کیا ہے۔ درست فعلن کے وز. پر ہوتا ہے
اک ہم ہی ہیں نا محرم کیا آپ کی نظروں میں
سے شعر واضح بھی ہو سکتا ہے

دیوانوں کے حلیے سے رہتا تھا گلہ جن کو
کچھ دن سے تو وہ بھی اب سنگھار نہیں کرتے
------------ سنگھار کا ن غنہ ہوتا ہے، فعول کے وزن پر
فعلن کے طور پر غلط ہے

سب بیٹھے ہوئے احمدؔ یوں عشق کی راہوں کے
قصے تو سناتے ہیں خبردار نہیں کرتے
دوسرا مصرع بحر سے خارج
 
Top