غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
آداب ۔ محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ۔ سپاس گزار رہوں گا
کیا ستم ہے کوئی فریاد نہیں کر سکتا ؟
دل تجھے چاہ کے بھی یاد نہیں کر سکتا
غیر ممکن ہے کہ پھرتا رہے صحرا صحرا
کام مجنوں کا تو ۔ فرہاد نہیں کر سکتا
میں نے بچپن سے زمانے کے ستم جھیلے ہیں
عشق یونہی مجھے برباد نہیں کر سکتا
ساری دنیا کو ہنسانے کا ہنر ہے مجھ میں
دلِ نا شاد کو میں شاد نہیں کر سکتا
میں ہوں شاہین ہے پرواز تخیّل میرا
قید مجھ کو کوئی صیاد نہیں کر سکتا
آگ بستی میں لگانے کی ہو فطرت جس کی
وہ نیا شہر تو ۔ آباد نہیں کر سکتا
زندگی اس کی گناہوں میں گزر جاتی ہے
خود کو جو نفس سے آزاد نہیں کر سکتا
وہ بھی بے بس ہے فقط رب کی رضا کے آگے
فیصلہ موت کا جلّاد نہیں کر سکتا
ساری دنیا اسے غالب کا لقب دیتی ہے
وہ جو اِک شعر بھی ایجاد نہیں کر سکتا
نور دنیا میں کہیں باغِ ارم کی تعمیر
آج کے دور کا شدّاد نہیں کر سکتا
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل بس دو اشعار دیکھ لو پھر
میں ہوں شاہین ہے پرواز تخیّل میرا
قید مجھ کو کوئی صیاد نہیں کر سکتا
پہلا مصرع واضح نہیں
زندگی اس کی گناہوں میں گزر جاتی ہے
خود کو جو نفس سے آزاد نہیں کر سکتا
نفس سے آزاد یا نفس کی ہا و ہوس سے آزاد؟
 
Top