غزل برائے اصلاح

الف عین
@خلیل الر حمن،عظیم ،فلسفی،یاسر شاہ و دیگر
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
--------------
چہرہ ترا جو روشن ہے من کی روشنی سے
رب نے تجھے بنایا ہے خوب فرصتی سے
-----------
( متبادل مطلع )
تیری خوشی پہ قرباں سب کچھ مرا خوشی سے
دوں گا ہزار خوشیاں پوری میں دل جمی سے
--------------
چاہت ملی جو مجھ کو دنیا کو دے رہا ہوں
کوئی نہیں ہے دشمن ہے دوستی سبھی سے
--------------
اک رات تو گزاریں دونوں سکوں سے مل کر
مانگی ہے رات ہم نےاپنی یہ زندگی سے
------------
لے جا یہ دل ہمارا اب ہو چکا تمہارا
تم نے خوشی سے مانگا ہم نے دیا خوشی سے
---------------
تیرا ضمیر جاگے تو مانگ لو معافی
تم نے زیادتی کی دنیا میں گر کسی سے
---------------
حالات ہو گئے ہیں دنیا کے اب دگرگوں
یا رب حیات گزرے میری یہ آشتی سے
------------
اللہ کے خزانے ارشد بھرے ہوئے ہیں
وہ چاہتا ہے مانگو دیتا ہے سب خوشی سے ( جو مانگنا ہے مانگو ، مانگو مگر اُسی سے )
-------------
 

الف عین

لائبریرین
درست ٹیگ یوں ہوتے ہیں بھائی
محمد خلیل الرحمٰن، عظیم ، یاسر شاہ ، فلسفی
فرصتیں لفظ محض عدیم الفرصتی کے ساتھ بولا جاتا ہے محض فرصت کے متبادل صورت میں نہیں
دل جمعی کو دل جمی لکھا ہے کیا؟ ج اور م دونوں مفتوح ہوتے ہیں چنانچہ دونوں مطلعوں میں قافیہ ہی غلط ہو گیا
شتر گربہ بھی موجود ہے دو اشعار میں
ان کو سدھار کر دوبارہ کہیں
 
الف عین
-----------
اصلاح کے بعد دوبارا
------------
یا رب مجھے بچانا دنیا کی چاکری سے
مجھ کو کبھی نہ رکھنا محروم حاضری سے
--------------
مطلع ثانی )
تیری خوشی پہ قرباں سب کچھ مرا خوشی سے
حاصل مرا ہی تم ہو پایا جو زندگی سے
-----------
چاہت ملی جو مجھ کو دنیا کو دے رہا ہوں
کوئی نہیں ہے دشمن ہے دوستی سبھی سے
--------------
اک رات تو گزاریں دونوں سکوں سے مل کر
مانگی ہے رات ہم نےاپنی یہ زندگی سے
------------
لے جا یہ دل ہمارا اب ہو چکا ہے تیرا
تم نے خوشی سے مانگا ہم نے دیا خوشی سے
---------------
تیرا ضمیر جاگے تو مانگ لو معافی
تم نے زیادتی کی دنیا میں گر کسی سے
---------------
حالات ہو گئے ہیں دنیا کے اب دگرگوں
یا رب حیات گزرے میری یہ آشتی سے
------------
اللہ کے خزانے ارشد بھرے ہوئے ہیں
وہ چاہتا ہے مانگو دیتا ہے سب خوشی سے ( جو مانگنا ہے مانگو ، مانگو مگر اُسی سے )
-------------
 

الف عین

لائبریرین
یا رب مجھے بچانا دنیا کی چاکری سے
مجھ کو کبھی نہ رکھنا محروم حاضری سے
------------- حاضری؟ اللہ کے حضور یا اپنے حضور الفاظ موجود ہوتے تو درست ہوتا۔ ورنہ محض حاضری سے کوئی برٹش انڈیا کے انگریزوں کی حاضری بمعنی کھانا بھی سمجھ سکتا ہے!

تیری خوشی پہ قرباں سب کچھ مرا خوشی سے
حاصل مرا ہی تم ہو پایا جو زندگی سے
----------- شتر گربہ ۔ یہ نیا شتر گربہ ہے۔ پچھلے دو اشعار کا شتر گربہ دور نہیں کیا گیا۔ تم ہو کو ' تو ہے' کیا جا سکتا ہے، لیکن 'مرا ہی' سے کیا مراد؟ اگر یہ مطلب ہے کہ تم ہی ان سب کا حاصل ہو جو کچھ زندگی سے حاصل ہوا ہے، تو دو لخت محسوس ہوتا ہے۔

چاہت ملی جو مجھ کو دنیا کو دے رہا ہوں
کوئی نہیں ہے دشمن ہے دوستی سبھی سے
-------------- دونوں مصرعوں میں ربط کے لیے میرا/میری لانا ضروری ہے

اک رات تو گزاریں دونوں سکوں سے مل کر
مانگی ہے رات ہم نےاپنی یہ زندگی سے
------------ رات دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا اچھا نہیں
آؤ گزار لیں ہم مل کر اسے سکوں سے
مانگی ہے رات ہم نے اپنی جو زندگی سے

لے جا یہ دل ہمارا اب ہو چکا ہے تیرا
تم نے خوشی سے مانگا ہم نے دیا خوشی سے
--------------- تو نے خوشی سے مانگا..... شتر گربہ دور ہو گیا نا؟

تیرا ضمیر جاگے تو مانگ لو معافی
تم نے زیادتی کی دنیا میں گر کسی سے
--------------- شتر گربہ کے علاوہ 'کسی کے ساتھ زیادتی' ہوتی ہے، کسی سے نہیں

حالات ہو گئے ہیں دنیا کے اب دگرگوں
یا رب حیات گزرے میری یہ آشتی سے
------------ درست

اللہ کے خزانے ارشد بھرے ہوئے ہیں
وہ چاہتا ہے مانگو دیتا ہے سب خوشی سے ( جو مانگنا ہے مانگو ، مانگو مگر اُسی سے )
------------- دونوں الگ الگ باتیں ہیں، اس کے خزانے بھرے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ بندہ مانگے
 
Top