غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
آداب ۔۔۔۔ محفلین ایک مسلسل غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے
یہیں ملتا ہے چاہت کا نشاں یہ لکھنؤ ہے
بھلا کیا کام نفرت کا یہاں یہ لکھنؤ ہے
نرالا ہے یہاں انداز سب کی گفتگو کا
یہیں کھیلی بڑھی اردو زباں ہی لکھنؤ ہے
بڑی مشہور ہے صبحِ بنارس جانتا ہوں
مگر ہر شام ڈھلتی ہے یہاں یہ لکھنؤ ہے
ہزاروں درد ہیں دل میں مگر لب پر ہنسی ہے
نہیں احساسِ غم ہم کو ۔ اماں یہ لکھنؤ ہے
نشے میں بھی قدم بہکے نہیں اب تک ہمارے
کہا کرتے ہیں یہ پیرِ مغاں یہ لکھنؤ ہے
کبھی جب ہوگی آمد خود تمہیں معلوم ہوگا
کروں تم سے میں اب کیا کیا بیاں یہ لکھنؤ ہے
ہے اس میں یاس کا دل جوش کی خوشبو اسی میں
سمجھ لو تم ادب کا گلستاں یہ لکھنؤ ہے
بڑی پر نور ہوتیں ہیں حسیں راتیں یہاں کی
نظر کو چومتی ہے کہکشاں یہ لکھنؤ ہے
 

الف عین

لائبریرین
کیا واقعی؟ لکھنؤ میں مجھے اب تو اردو کی خوشبو محسوس ہی نہیں ہوتی!
درست ہے غزل۔ دو ایک جگہ ردیف زیادہ فٹ تو نہیں لیکن چل جائے گی۔
 
Top