غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
آداب محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے
دل جسے بھی ملا ہے پتھر کا
خواب دیکھے گا سنگ مرمر کا
دیکھ دنیا کہیں سجا مت دے
تاج سر پر مرے ترے سر کا
آنکھ سورج سے ہم ملائیں گے
در کھلے گا کبھی جو خاور کا
گھر کہاں ہے کہاں ٹھکانہ ہے
مت پتہ پوچئے قلندر کا
زندگی بھی کوئی کہانی ہے
میرا کردار بھی ہے جوکر کا
میں نے پڑھ کر سنا دیا اس کو
وہ جو لایا تھا چہرا پیپر کا
غم سے ٹوٹا نڈھال بیٹھا ہے
ایک انسان میرے اندر کا
نور رکھتا ہے جاں ہتھیلی پر
جب سے ماحول بن گیا ڈر کا
 

الف عین

لائبریرین
دل جسے بھی ملا ہے پتھر کا
خواب دیکھے گا سنگ مرمر کا
... ایک ہی صیغہ رکھیں
دل جسے بھی ملے گا...

دیکھ دنیا کہیں سجا مت دے
تاج سر پر مرے ترے سر کا
... مت تو محض امر میں استعمال ہوتا ہے، یہاں 'نہ' کا محل ہے

آنکھ سورج سے ہم ملائیں گے
در کھلے گا کبھی جو خاور کا
... خاور اور سورج تو ایک ہی بات ہے!
آنکھ اس سے ملا کے دیکھیں گے
کیسا رہے گا؟

گھر کہاں ہے کہاں ٹھکانہ ہے
مت پتہ پوچئے قلندر کا
زندگی بھی کوئی کہانی ہے
میرا کردار بھی ہے جوکر کا
میں نے پڑھ کر سنا دیا اس کو
وہ جو لایا تھا چہرا پیپر کا
غم سے ٹوٹا نڈھال بیٹھا ہے
ایک انسان میرے اندر کا
نور رکھتا ہے جاں ہتھیلی پر
جب سے ماحول بن گیا ڈر کا
... باقی اوپر کے درست لگ رہے ہیں
 

شہنواز نور

محفلین
اس پہ میرا لہو نہیں لیکن
رنگ بدلا ہوا ہے خنجر کا
آپ خود کو سراج کہتے ہیں
اور کردار میر جعفر کا
تو سیاست میں آ گیا جب سے
کوئی نیتا نہیں ہے ٹکّر کا

سر کیا یہ اشعار درست ہیں
الف عین
 
Top